مظہر حسین شیخ:
یوم دفاع کے موقع پر بچوں کا جوش اور جذبہ قابل دید ہوتا ہے ان کے بس میں ہو تووہ بھی دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیں اور اپنے پیارے ملک پاکستان کی طرف ہر میلی آنکھ دیکھنے والوں کوعبرت ناک انجام تک پہنچا کر دم لیں۔یہی جوش وجذبہ 6ستمبر1965ء کوہونے والی پاک بھارت جنگ کے دوران اس وقت بچوں میں دیکھنے کو ملا اس وقت کے بچوں میں آج کوئی فوج کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئر بن کر ملک وقوم کی خدمت کررہا ہے۔آج کے بچے بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو نے کی خواہش رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ نسل نوتعلیمی میدان میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان امن پسند قوم ہے اوربچہ بچہ امن چاہتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ مسلمان قوم اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بھی خوب جانتی ہے،تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان نے کبھی چھپ کر وار نہیں کیا ہمیشہ سامنے سے وار کیاکیونکہ بزدل پیچھے سے وار کرتے ہیں اور بہادر سامنے سے، جس کا سب سے بڑا ثبوت 6ستمبر1965ء کو پاک بھارت جنگ ہے۔5اور6ستمبر کی درمیانی شب کوبھارت نے پاکستان پر اچانک حملہ کر دیاسترہ روزہ اس جنگ میں بھارت بُری طرح ذلیل ورسوا ہوا۔یقیناً آپ نے اپنی نصابی کتابوں میں اسے تفصیل سے پڑھا ہوگا۔
ہندو ازل سے ہمارا دشمن ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کی دشمنی کوئی آج سے نہیں بلکہ یہ دشمنی چودہ سو سال سے چلی آرہی ہے اوراگر بھارت کا یہی رویہ رہا تو یہ دْشمنی تاقیامت چلتی رہے گی۔جبکہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ جنگ وجدل سے مسائل حل نہیں ہو سکتے آخر کار مذاکرات کی میز پرآنا ہی پڑتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان ایک بہادر اور امن پسند قوم ہے بہادر چُھپ کر وار نہیں کرتااوردشمن کوللکار کرحملہ آورہوتا ہے۔ بزدل ہمیشہ چُھپ کر وار کرتا ہے یہی کچھ پانچ اور چھ ستمبر کی درمیانی شب کو ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے پاکستان کی سرزمین پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں نہ صرف پاک فوج بلکہ پاکستانی قوم کا بچہ بچہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔
ہندو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور اس فکرمیں رہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو کس طرح سے نقصان پہنچائے۔ تحریک پاکستان کے دوران جو ظلم ہندوؤں اور سکھوں نے مل کر مسلمانوں پر ڈھائے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہندو مسلمانوں کی الگ اسلامی ریاست کو برداشت نہ کرسکا یہی وجہ تھی کہ پاکستان بننے کے تقریباً ایک سال بعد ہی ستمبر 1948 میں کشمیر پر حملہ کردیا تاکہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جاسکے۔ پاکستان اس وقت ابھی ایک سال کا تھا اس کے پاس جنگی سازو سامان کی انتہائی کمی تھی اور وسائل نہ ہونے کے برابر تھے مگر ہندو اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا بعدازاں پاکستان تیزی کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا۔ ہندو بنیا اس ترقی کو برداشت نہ کرسکا لہٰذا اس نے اچانک 5اور6ستمبر1965 کی درمیانی شب کو پاکستان پر حملہ کردیا۔ اس وقت بھی پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج تھی اور نہ ہی اتنااسلحہ مگر جو قوت و طاقت جوش وجذبہ اس قوم اور فوجی جوانوں میں تھا وہ اس بے دین و بے ایمان ہندووٴں میں نہ تھا اورمسلمانوں کے پاس طاقت تھی ایمان کی۔اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ محبت اور یقین کی۔65ء کی اس جنگ میں قوم کا جذبہ قابل دید تھا پاکستانی طیارے جب بھارتی طیاروں کا پیچھا کرتے تو پاک وطن کے شہری بڑے جوش وجذبے کے ساتھ سڑکوں اور گلیو ں میں نکل آتے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے وہ یہ چاہتے تھے کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے ابھی اور اسی وقت بارڈر پر پہنچ جائیں لیکن یہ کام پاک وطن کی بہادر،دلیر اورنڈر فوج بخوبی سر انجام دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ بچے بھی بالکل بے خوف وخطر سڑکوں پر نکل آتے حالانکہ دشمن کی گولا باری کے دوران ان کا سڑکوں پر آنا خطرے سے خالی نہ تھالیکن بچوں میں بھی قومی جذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔ بچے ٹولیوں کی صورت میں پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے اور ہاتھوں میں پاکستانی پرچم اٹھائے دیوانہ وار اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہوتے۔ وہ بچے جو اس وقت آٹھ یا دس برس کے تھے آج الحمد للہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ کے ہوچکے ہیں۔ ان بچوں میں لا تعداد بچے اسی قومی جوش و جذبے کے تحت فوج میں بھرتی ہوئے۔ کوئی ائر فورس میں گیا تو کوئی پاک نیوی میں، کوئی کرنل ہوکر ریٹائر ہوا تو کوئی جنرل۔ آج بھی بچوں کے اند ر وہی جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے جب بھی کہیں سے کوئی فوجی گاڑی یا فوجی قافلہ گزرتا ہے بچے انہیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے اور سیلوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے اندر پاک فوج میں جانے کی خواہش مزید ابھرتی ہے۔23مارچ کے دن فوجی پریڈ کو بچے انتہائی شوق اور جذبے کے ساتھ دیکھتے ہیں اور پھرکئی بچے اپنے والدین سے کہتے ہیں کہ پاپا میں بھی فوج میں جاؤں گا اور ہندوؤں کو مار بھگاؤں گا۔اکثر بچے اسی شوق اور جذبے کے تحت کیڈٹ سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں تاکہ ان کے جسم پر فوجی وردی ہو۔ وہ وردی پہن کر خود کو فوجی افسر یا جوان سمجھتے ہیں اور بڑے پُر وقار طریقے سے چلتے اور بات چیت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بچو! 6ستمبر کی جنگ ہم پر مسلط کی گئی۔ بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان نیا نیا وجود میں آیا ہے نہ اس کے پاس کوئی اسلحہ ہے نہ بڑی فوج، نہ کوئی ٹینک ہیں نہ توپیں نہ طیارے ہیں نہ بحری جہاز، لہٰذا ہم پاکستان کو فتح کرلیں گے۔ بھار ت اس وقت بھی ایک بڑی طاقت تھا اور یہی غرو اور گھمنڈ اسے اکسا کر جنگ کی طرف لے آیا۔ بھارتی جرنیلوں اور سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ صبح کا ناشتہ اسمبلی ہال لاہور میں کریں گے یعنی پاکستان کو فتح کرکے پنجاب اسمبلی میں فتح کا جشن منائیں گے لہٰذا بھارت نے پاکستان پر تین اطراف سے حملہ کردیالیکن جلد ہی ان کا یہ خواب چکنا چور ہو گیا۔ صدرپاکستان جنرل ایوب خان نے بھارتی حملے کے پیش نظر فوری طورپر ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”دس کروڑ پاکستانی شہریوں کیلئے آزمائش کا وقت آن پہنچا ہے تیار ہوجاؤ ضرب لگانے کیلئے ،کاری ضربیں لگانے کیلئے کیونکہ جس بلا نے تمہاری سرحدوں پر اپنا سایہ ڈالا ہے اس کی تباہی یقینی ہے “۔ ان الفاظ نے پوری قوم کا لہو گرمادیا اور پھر پہلے ہی روز بھارت کے 800 سپاہی ہلاک یا مجروح ہوئے اور دشمن کے 22جہاز تباہ کردئیے۔پاکستان نے اسلحہ اورفوج کی کمی، ٹیک اور توپیں اور نہایت کم تعداد میں جنگی طیارے ہونے کے باوجود بھارتی افواج کو ناکوں چنے چبادئیے۔ کھیم کرن کا محاذ، چونڈہ کا محاذ، چھمب جھوڑیاں کا محاذ، واہگہ بارڈر یعنی کہ ہر محاذ پر دشمن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت نے سیالکوٹ محاذ پر دنیا کا سب سے بڑا ٹینکوں کے حملے کا منصوبہ بنارکھا تھا جو پاک فوج کے نڈر اور بہادر سپاہیو ں نے ناکام بنادیا۔پاک فوج نے بھارتی فوج کو پسپا کردیا۔اس دوران اقوام متحدہ نے دو قراردادیں منظور کیں جن میں دونوں ملک سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔اس طرح بات چیت ہوتے ہوتے بالآخر 20ستمبر 1965 کو سلامتی کونسل میں پاکستان کے احتجاج کے باوجود جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک اپنی اپنی افواج 5اگست 1965 والی جگہوں پر لے آئیں۔ اس طرح 23 ستمبر کو جنگ بندی ہوگئی۔ بچو آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس جنگ میں کس ملک کا کتنا نقصان ہوا۔ جنگ میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد1033 اور بھارت 9500۔ زخمی ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد2171 اور بھارت کی 11000، لاپتہ پاکستانی فوجی630 اور بھارتی فوجی1700۔ تباہ ہونے والے پاکستانی ٹینک 165 اور بھارتی ٹینک 475۔ تباہ ہونے والے پاکستانی طیارے14اور بھارتی طیارے110۔ پاکستان کے قبضے میں آنے والا بھارتی علاقہ 1600مربع میل اور بھارت میں قبضے میں آنے والا پاکستانی علاقہ450مربع میل۔ تو بچو اس اعداد و شمار سے ثابت ہوا کہ پاکستان کم قوت رکھنے کے باوجود اپنے سے تین گنا بھارتی فوج کو کئی گنا زیادہ نقصان پہنچایا اور اسے شکست فاش دی۔
یوم دفاع کے موقع پر بچوں کا جوش اور جذبہ قابل دید ہوتا ہے ان کے بس میں ہو تووہ بھی دشمن کو ناکوں چنے چبوا دیں اور اپنے پیارے ملک پاکستان کی طرف ہر میلی آنکھ دیکھنے والوں کوعبرت ناک انجام تک پہنچا کر دم لیں۔یہی جوش وجذبہ 6ستمبر1965ء کوہونے والی پاک بھارت جنگ کے دوران اس وقت بچوں میں دیکھنے کو ملا اس وقت کے بچوں میں آج کوئی فوج کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہے، کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئر بن کر ملک وقوم کی خدمت کررہا ہے۔آج کے بچے بھی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو نے کی خواہش رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ نسل نوتعلیمی میدان میں ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان امن پسند قوم ہے اوربچہ بچہ امن چاہتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ مسلمان قوم اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بھی خوب جانتی ہے،تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان نے کبھی چھپ کر وار نہیں کیا ہمیشہ سامنے سے وار کیاکیونکہ بزدل پیچھے سے وار کرتے ہیں اور بہادر سامنے سے، جس کا سب سے بڑا ثبوت 6ستمبر1965ء کو پاک بھارت جنگ ہے۔5اور6ستمبر کی درمیانی شب کوبھارت نے پاکستان پر اچانک حملہ کر دیاسترہ روزہ اس جنگ میں بھارت بُری طرح ذلیل ورسوا ہوا۔یقیناً آپ نے اپنی نصابی کتابوں میں اسے تفصیل سے پڑھا ہوگا۔
ہندو ازل سے ہمارا دشمن ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کی دشمنی کوئی آج سے نہیں بلکہ یہ دشمنی چودہ سو سال سے چلی آرہی ہے اوراگر بھارت کا یہی رویہ رہا تو یہ دْشمنی تاقیامت چلتی رہے گی۔جبکہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ جنگ وجدل سے مسائل حل نہیں ہو سکتے آخر کار مذاکرات کی میز پرآنا ہی پڑتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان ایک بہادر اور امن پسند قوم ہے بہادر چُھپ کر وار نہیں کرتااوردشمن کوللکار کرحملہ آورہوتا ہے۔ بزدل ہمیشہ چُھپ کر وار کرتا ہے یہی کچھ پانچ اور چھ ستمبر کی درمیانی شب کو ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے پاکستان کی سرزمین پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں نہ صرف پاک فوج بلکہ پاکستانی قوم کا بچہ بچہ دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔
ہندو کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور اس فکرمیں رہتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو کس طرح سے نقصان پہنچائے۔ تحریک پاکستان کے دوران جو ظلم ہندوؤں اور سکھوں نے مل کر مسلمانوں پر ڈھائے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہندو مسلمانوں کی الگ اسلامی ریاست کو برداشت نہ کرسکا یہی وجہ تھی کہ پاکستان بننے کے تقریباً ایک سال بعد ہی ستمبر 1948 میں کشمیر پر حملہ کردیا تاکہ پاکستان پر دباؤ ڈالا جاسکے۔ پاکستان اس وقت ابھی ایک سال کا تھا اس کے پاس جنگی سازو سامان کی انتہائی کمی تھی اور وسائل نہ ہونے کے برابر تھے مگر ہندو اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا بعدازاں پاکستان تیزی کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا۔ ہندو بنیا اس ترقی کو برداشت نہ کرسکا لہٰذا اس نے اچانک 5اور6ستمبر1965 کی درمیانی شب کو پاکستان پر حملہ کردیا۔ اس وقت بھی پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج تھی اور نہ ہی اتنااسلحہ مگر جو قوت و طاقت جوش وجذبہ اس قوم اور فوجی جوانوں میں تھا وہ اس بے دین و بے ایمان ہندووٴں میں نہ تھا اورمسلمانوں کے پاس طاقت تھی ایمان کی۔اللہ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ محبت اور یقین کی۔65ء کی اس جنگ میں قوم کا جذبہ قابل دید تھا پاکستانی طیارے جب بھارتی طیاروں کا پیچھا کرتے تو پاک وطن کے شہری بڑے جوش وجذبے کے ساتھ سڑکوں اور گلیو ں میں نکل آتے اور نعرہ تکبیر بلند کرتے وہ یہ چاہتے تھے کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے کے لئے ابھی اور اسی وقت بارڈر پر پہنچ جائیں لیکن یہ کام پاک وطن کی بہادر،دلیر اورنڈر فوج بخوبی سر انجام دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ بچے بھی بالکل بے خوف وخطر سڑکوں پر نکل آتے حالانکہ دشمن کی گولا باری کے دوران ان کا سڑکوں پر آنا خطرے سے خالی نہ تھالیکن بچوں میں بھی قومی جذبہ دیکھنے کے قابل تھا۔ بچے ٹولیوں کی صورت میں پاکستان زندہ باد، پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے اور ہاتھوں میں پاکستانی پرچم اٹھائے دیوانہ وار اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہوتے۔ وہ بچے جو اس وقت آٹھ یا دس برس کے تھے آج الحمد للہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ کے ہوچکے ہیں۔ ان بچوں میں لا تعداد بچے اسی قومی جوش و جذبے کے تحت فوج میں بھرتی ہوئے۔ کوئی ائر فورس میں گیا تو کوئی پاک نیوی میں، کوئی کرنل ہوکر ریٹائر ہوا تو کوئی جنرل۔ آج بھی بچوں کے اند ر وہی جذبہ دیکھنے کو ملتا ہے جب بھی کہیں سے کوئی فوجی گاڑی یا فوجی قافلہ گزرتا ہے بچے انہیں دیکھ کر ہاتھ ہلاتے اور سیلوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے اندر پاک فوج میں جانے کی خواہش مزید ابھرتی ہے۔23مارچ کے دن فوجی پریڈ کو بچے انتہائی شوق اور جذبے کے ساتھ دیکھتے ہیں اور پھرکئی بچے اپنے والدین سے کہتے ہیں کہ پاپا میں بھی فوج میں جاؤں گا اور ہندوؤں کو مار بھگاؤں گا۔اکثر بچے اسی شوق اور جذبے کے تحت کیڈٹ سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں تاکہ ان کے جسم پر فوجی وردی ہو۔ وہ وردی پہن کر خود کو فوجی افسر یا جوان سمجھتے ہیں اور بڑے پُر وقار طریقے سے چلتے اور بات چیت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بچو! 6ستمبر کی جنگ ہم پر مسلط کی گئی۔ بھارت کا خیال تھا کہ پاکستان نیا نیا وجود میں آیا ہے نہ اس کے پاس کوئی اسلحہ ہے نہ بڑی فوج، نہ کوئی ٹینک ہیں نہ توپیں نہ طیارے ہیں نہ بحری جہاز، لہٰذا ہم پاکستان کو فتح کرلیں گے۔ بھار ت اس وقت بھی ایک بڑی طاقت تھا اور یہی غرو اور گھمنڈ اسے اکسا کر جنگ کی طرف لے آیا۔ بھارتی جرنیلوں اور سیاستدانوں کا کہنا تھا کہ صبح کا ناشتہ اسمبلی ہال لاہور میں کریں گے یعنی پاکستان کو فتح کرکے پنجاب اسمبلی میں فتح کا جشن منائیں گے لہٰذا بھارت نے پاکستان پر تین اطراف سے حملہ کردیالیکن جلد ہی ان کا یہ خواب چکنا چور ہو گیا۔ صدرپاکستان جنرل ایوب خان نے بھارتی حملے کے پیش نظر فوری طورپر ہنگامی حالات کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”دس کروڑ پاکستانی شہریوں کیلئے آزمائش کا وقت آن پہنچا ہے تیار ہوجاؤ ضرب لگانے کیلئے ،کاری ضربیں لگانے کیلئے کیونکہ جس بلا نے تمہاری سرحدوں پر اپنا سایہ ڈالا ہے اس کی تباہی یقینی ہے “۔ ان الفاظ نے پوری قوم کا لہو گرمادیا اور پھر پہلے ہی روز بھارت کے 800 سپاہی ہلاک یا مجروح ہوئے اور دشمن کے 22جہاز تباہ کردئیے۔پاکستان نے اسلحہ اورفوج کی کمی، ٹیک اور توپیں اور نہایت کم تعداد میں جنگی طیارے ہونے کے باوجود بھارتی افواج کو ناکوں چنے چبادئیے۔ کھیم کرن کا محاذ، چونڈہ کا محاذ، چھمب جھوڑیاں کا محاذ، واہگہ بارڈر یعنی کہ ہر محاذ پر دشمن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بھارت نے سیالکوٹ محاذ پر دنیا کا سب سے بڑا ٹینکوں کے حملے کا منصوبہ بنارکھا تھا جو پاک فوج کے نڈر اور بہادر سپاہیو ں نے ناکام بنادیا۔پاک فوج نے بھارتی فوج کو پسپا کردیا۔اس دوران اقوام متحدہ نے دو قراردادیں منظور کیں جن میں دونوں ملک سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔اس طرح بات چیت ہوتے ہوتے بالآخر 20ستمبر 1965 کو سلامتی کونسل میں پاکستان کے احتجاج کے باوجود جنگ بندی کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ اس میں کہا گیا تھا کہ دونوں ممالک اپنی اپنی افواج 5اگست 1965 والی جگہوں پر لے آئیں۔ اس طرح 23 ستمبر کو جنگ بندی ہوگئی۔ بچو آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس جنگ میں کس ملک کا کتنا نقصان ہوا۔ جنگ میں ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد1033 اور بھارت 9500۔ زخمی ہونے والے پاکستانیوں کی تعداد2171 اور بھارت کی 11000، لاپتہ پاکستانی فوجی630 اور بھارتی فوجی1700۔ تباہ ہونے والے پاکستانی ٹینک 165 اور بھارتی ٹینک 475۔ تباہ ہونے والے پاکستانی طیارے14اور بھارتی طیارے110۔ پاکستان کے قبضے میں آنے والا بھارتی علاقہ 1600مربع میل اور بھارت میں قبضے میں آنے والا پاکستانی علاقہ450مربع میل۔ تو بچو اس اعداد و شمار سے ثابت ہوا کہ پاکستان کم قوت رکھنے کے باوجود اپنے سے تین گنا بھارتی فوج کو کئی گنا زیادہ نقصان پہنچایا اور اسے شکست فاش دی۔
No comments:
Post a Comment