Friday, 12 September 2014

KIDS JOKES

                                ""JOKES""
                                               Writer   :  " ABDULLAH ARSHAD "

مرنے کا فائدہ
ایک خاتون نے دوسری خاتون سے پو چھا۔”جنت میں مردوں کو تو حوریں ملیں گی مگر عورتوں کو کیا ملے گا؟“ ”یہی اپنے اپنے خاوند۔“ دوسری عورت نے جواب میں بتایا۔ پہلی عورت نے یہ سنا تو تلخی سے بولی۔”دفع کرو پھر مرنے کا کیا فائدہ۔“پڑتالپرنام سنگھ لدھیانہ یونیورسٹی کا امتحان دے رہا تھا۔ امتحانی پرچہ کچھ یوں بنا ہوا تھا کہ سوال جواب صحیح یا غلط لکھ کر دینا تھا۔ پرچہ خاصا طویل تھا۔ پرنام سنگھ بہت انہماک سے پرچہ حل کرنے میں جٹا ہوا تھا۔ نگران ٹہلتا ہوا پرنام سنگھ کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پرنام سنگھ نے ایک روپے کا سکہ ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے۔ ہر سوال پر وہ اسے اُچھا لتاہے، سکے کا رخ دیکھتاہے اور سوال کا جواب غلط یا صحیح لکھ دیتاہے۔ نگران بہت حیران ہوا، اس نے پوچھا، ”کا کا جی… ایہہ کیہہ کر رہے او؟“ پرنام سنگھ کہنے لگا”سرجی!پرچہ حل کر رہیا واں!“ نگران کہنے لگا،”پرتسی بار بار روپیہ سٹ کے”ٹاس“ کیوں کر رہے او؟“ پرنام سنگھ بولا،”سرجی! ایہہ سائنس اے! ڈیڑھ سو سوال نیں، میں ہر سوال تے ٹاس کرنا واں، سیدھا پاسا آوے تے جواب ٹھیک، پُٹھا پاسہ آوے تے جواب غلط، سائنس ایہہ کہندی اے کہ ایس طراں میرے ادھے جواب ضرور ٹھیک ہون گے!“ نگران پرنام سنگھ کے”سائنس“ کے علم سے بہت متاثر ہوا اور واپس چلا گیا۔ پرچے کا وقت ختم ہونے والاتھا تو وہ پھر پر نام سنگھ کے پاس آیا، دیکھا کہ پرنام سنگھ بار بار سکہ اچھال رہا ہے،ساتھ میں گالیاں بھی دے رہا ہے! اس نے پوچھا! ”کا کاجی… کیہہ گل اے ، بڑے غصے وچ او؟“ پڑتال کرن واسطے ٹاس کرناواں تے بھونتی دا جواب کجھ ہور آؤنداوے۔“
ماتمایک شخص اپنا رنگین ٹی وی اور وی سی آر اٹھائے سمندر کی طرف جا رہا تھا۔ راستے میں اس کا دوست ملا اور اس نے حیرانی سے پو چھا۔“ کیا ماجرا ہے؟“ وہ بولا۔”خو دکشی کرنے جا رہا ہوں اور ٹی وی، وی سی آر ساتھ لے کر ڈوبوں گا۔ میری بیوی مجھ پر نہ سہی ان چیزوں کی محرومی کا تو ماتم کرے گی۔“پرنام سنگھ، گورنام سنگھ اور ان کے دو دوستوں نے گاؤں میں اپنی زمین بیچی اور شہر میں ہوٹل بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شہر میں بہترین جگہ پر عالی شان ہوٹل بنایا مگر ایک مہینے تک ان کے ہوٹل میں ایک گاہک بھی نہ گھسا، کیوں؟ اس لئے کہ چاروں نے”پنڈ“ سے لا کر اپنے چار بوہلی کتے بھی ہوٹل کے دروازے پر باندھ دئیے تھے! پھر چاروں نے ہوٹل بیچ کر گاڑیاں مرمت کرنے کا گیراج بنانے کا فیصلہ کیا۔ ورکشاپ بنائی، ہر قسم کی مشینری لگائی، مگر ایک مہینے تک کوئی گاہک ان کے گیراج میں گاڑی مرمت کرانے نہ آیا! کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے گیراج دوسری منزل پر بنایا تھا! گیراج بیچ کر چاروں دوستوں نے ٹیکسی خریدی… ایک ماہ تک سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے مگر کوئی آدمی ان کی ٹیکسی میں نہ بیٹھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ چاروں سر دار ہر وقت اپنی ٹیکسی میں ہی سوار رہتے تھے! تنگ آکر سرداروں نے ٹیکسی سمندر میں پھینکنے کا فیصلہ کیا، سارا دن وہ ٹیکسی سمندر میں دھکیلنے کے لئے زور لگاتے رہے مگر ٹیکسی اپنی جگہ سے نہ ہلی! کیوں؟ اس لئے کہ دو آگے سے اور دو پیچھے ٹیکسی کو دھکا لگا رہے تھے!
کاروبارپرنام سنگھ، گورنام سنگھ اور ان کے دو دوستوں نے گاؤں میں اپنی زمین بیچی اور شہر میں ہوٹل بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شہر میں بہترین جگہ پر عالی شان ہوٹل بنایا مگر ایک مہینے تک ان کے ہوٹل میں ایک گاہک بھی نہ گھسا، کیوں؟ اس لئے کہ چاروں نے”پنڈ“ سے لا کر اپنے چار بوہلی کتے بھی ہوٹل کے دروازے پر باندھ دئیے تھے! پھر چاروں نے ہوٹل بیچ کر گاڑیاں مرمت کرنے کا گیراج بنانے کا فیصلہ کیا۔ ورکشاپ بنائی، ہر قسم کی مشینری لگائی، مگر ایک مہینے تک کوئی گاہک ان کے گیراج میں گاڑی مرمت کرانے نہ آیا! کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے گیراج دوسری منزل پر بنایا تھا! گیراج بیچ کر چاروں دوستوں نے ٹیکسی خریدی… ایک ماہ تک سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے مگر کوئی آدمی ان کی ٹیکسی میں نہ بیٹھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ چاروں سر دار ہر وقت اپنی ٹیکسی میں ہی سوار رہتے تھے! تنگ آکر سرداروں نے ٹیکسی سمندر میں پھینکنے کا فیصلہ کیا، سارا دن وہ ٹیکسی سمندر میں دھکیلنے کے لئے زور لگاتے رہے مگر ٹیکسی اپنی جگہ سے نہ ہلی! کیوں؟ اس لئے کہ دو آگے سے اور دو پیچھے ٹیکسی کو دھکا لگا رہے تھے!ست واریپر نام سنگھ نے نئی کار خریدی۔ پہلے روز ہی لانگ ڈرائیو کے لئے سڑک پر آگیا۔ گھر سے تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ کار ایک دودھ والے کی سائیکل سے ٹکرا گئی ، دودھ بیچنے والا موٹا پہلوان تھا۔ وہ نیچے گرا ، ہلکی پھلکی چوٹیں آئیں ، دودھ سڑک پر بہہ گیا، سائیکل کا ”چمٹا “ ٹیڑھا ہو گیا۔ جتنی دیر میں پر نام سنگھ نے گاڑی روکی، پہلوان اٹھ کر اس تک پہنچ گیا۔ پر نام سنگھ کو گریبان سے کھینچ کر کار سے باہر نکالا اور خوب پھینٹی لگائی، اچھی طرح دھلائی کرنے کے بعد وہ پرنام سنگھ سے بولا، ”ایہہ تے اونہاں سٹاں دا حساب سی، جیہڑیاں مینوں لگیاں! میر ادودھ ڈلیا، سائیکل دا چمٹا ونگاہو یا… اودے بدلے میں تیری گڈی بھناں گا۔“ یہ کہہ کر پہلوان نے ڈنڈا اٹھایا اور کار کی بتی توڑی دی۔ پر نام سنگھ منت سماجت کے لئے آگے بڑھا تو پہلوان نے زمین پر ایک لکیر کھینچی، پرنام سنگھ کو اس کے دوسری طرف کھڑ اکیا اور کہنے لگا، ”مینوں آرام نال گڈی بھن لین دے… جے تُوں لکیر ٹپی تے میں تینوں بھن دیاں گا۔“ یہ کہہ کر پہلوان جی نے گاڑی کی ایسی تیسی پھیرنا شروع کر دی۔ جب گاڑی، کار سے بسکٹ بن گئی تو وہ واپس پلٹا، دیکھا تو پر نام سنگھ کھڑا ہنس رہا تھا۔ ”اوئے میں تیری گڈی بھن دتی، توں فیروی ہس رہیا ایں، کیوں ؟“ پر نام سنگھ کہنے لگا،” میں دس دینا پہلوان جی… مینوں مارو گے تے نئیں؟“ پہلوان بولا، نئیں ماراں گا، توں گل دس!“ پر نام سنگھ کہنے لگا،”پہلوان جی… تساں مینوں کہیا سی توں لائن نئیں ٹپنی، جدوں تسی میری کار بھن رہے سو، میں ست واری لائن ٹپی، تہانوں پتہ ای نئیں لگا۔جہاز چلا رہا تھاہوائی جہاز کے ایک حادثے میں کوئی شخص زندہ نہ بچا۔ ماہرین جائے حادثہ پر پہنچے تو ہر چیزیوں تباہ ہو چکی تھی کہ حادثے کی وجوہات کا پتہ چلانا ممکن نہیں تھا۔ تباہ شدہ جہاز کے قریب کسی درخت پر ایک بندر بیٹھا تھا، جس کے گلے میں ائیر لائن کا ٹیگ لٹک رہا تھا۔ پتہ چلا کہ یہ بندر بھی تباہ ہونے والے جہاز کا مسافر تھا۔ اسے پکڑ لیا گیا۔ اشاروں کی زبان کے ایک ماہر کی خدمات حاصل کی گئیں، تاکہ وہ بندر سے بات چیت کر کے کچھ معلوم کر سکے! تفتیشی بورڈ نے ماہر کے ذریعے بندرسے سوال کیا، ”حادثہ کتنے بجے ہو اتھا؟“ اشاروں کی زبان والے ماہر نے سوال بندر کو سمجھایا، بندر نے سوال سن کر اپنی کلائی کی طرف اشارہ کیا، پھر دونوں ہاتھوں کی دس انگلیاں کھڑی کیں، اس کے بعد اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر اپنے گال پر رکھے اور سر کو ٹیڑھا کر لیا۔ ماہرین نے اشارہ سمجھ کر بتایا”بندر کہہ رہا ہے حادثہ رات کے دس بجے ہوا۔“ تفتیشی بورڈ نے اگلا سوال کیا،” اس وقت مسافر کیا کر رہے تھے؟“ بندر نے پھر دونوں ہاتھ اپنے گال کے ساتھ رکھ کر سر کو ٹیڑھا کیا، ماہر نے پھر بتایا،”بندر کہہ رہا ہے مسافر سو رہے تھے!“ ائیر سوسٹسیں کیا کر رہی تھیں؟ بندر نے کہا”سو رہی تھیں۔“ تفتیش کرنے والوں نے پو چھا”پائلٹ کیا کر رہاتھا؟“ بند رنے پھر وہی جواب دیا”سو رہا تھا۔“ تفتیشی ٹیم میں سے ایک نے بندر سے پو چھا،”جب سب لوگ سو رہے تھے تو تم کیا کر رہے تھے؟“ بندر نے دونوں ہاتھوں کو گھماتے ہوئے اشارے سے بتایا،”جہاز چلا رہا تھا۔“
آگایک آدمی نے فائرسٹیشن فون کیا اور بولا”دیکھئے میں نے حال ہی میں اپنا باغ سنوارا ہے میں نے اس میں بیش قیمتی پودے لگائے ہیں۔“ ”کیا اس میں آگ لگ گئی ہے۔“دوسری طرف سے پو چھا گیا۔ ”کچھ پودے تو بالکل ہی نایاب ہیں۔ میں نے انہیں بڑی مشکل سے حاصل کیا ہے“ ”دوسری طرف سے بڑی غصے بھری آواز آئی۔”دیکھئے جناب! یہ فائرسٹیشن ہے، گل فروشی کی دکان نہیں۔“ ”معلوم ہے مجھے! ذرا غور سے میری بات سنئیے، میرے پڑوس میں آگ لگ گئی ہے اور میں نہیں چاہتاکہ جب آپ لوگ آگ بجھانے آئیں تو میرے باغ اور پودوں کو نقصان پہنچائیں۔“
چھڑیایل بی ڈبلیو کی پانچویں اپیل بھی منظو رنہ ہوئی تو باؤلر کو تاؤ آگیا۔ وہ ایمپائر کی طرف پلٹا اور غصے سے بولا۔ جناب عالی! یہ تو بتائیے آپ کی چھڑی کہاں ہے؟“ ”چھڑی؟ کیسی چھڑی ، میرے پاس کوئی چھڑی نہیں۔“ایمپائر نے حیرت سے کہا۔ ”کمال ہے۔“ باؤلر غرایا۔” میں نے کسی اندھے کو بغیر چھڑی کے نہیں دیکھا۔“
فینسی شوایک تہوار پر فینسی ڈریس شو کے لئے ایک صاحب نے کتے کا بہروپ بھر رکھا تھا اور وہ بالکل کتا دکھائی دے رہا تھا۔ جب وہ ڈریس شو میں شرکت کے لئے جا رہے تھے تو راستے میں آوارہ کتے پکڑنے والے شخص نے انہیں دبوچ لیا اور گھسیٹ کر بلدیہ کے ٹرک کی طرف لے جانے لگا۔ وہ شخص چلانے لگاکہ میں نے فینسی ڈریس شو کے لئے یہ بہروپ دھار رکھا ہے۔ ”بکواس بند کرو۔“کتے پکڑنے والے نے کہا۔”میں نے صبح سے اب تک بارہ کتے پکڑے ہیں، ہر کتے نے اسی قسم کی بات کی ہے۔“  تنخواہ میں اضافہایک ملازم کو تنخواہ ملی تو اس نے سوچا بیوی کے حوالے کرنے سے پہلے کم ازکم رقم تو گن لیں۔ جب ا س نے رقم گنی تو اس میں سو روپے زیادہ تھے۔ وہ فوراً کیشئر کے پاس پہنچا اور بولا آپ نے غلطی سے سو روپے زیادہ دے دئیے ہیں۔ کیشئر نے رقم گنی او رکہا رقم بالکل ٹھیک ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ آپ کی تنخواہ میں گزشتہ تین مہینوں سے سو روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ شخص حیرانگی سے بولا۔”کمال ہے یار۔ میری بیوی نے تو مجھے بالکل بتایا ہی نہیں…“خواہشاستاد کلاس میں سمجھاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ محنت کر کے آدمی جو چاہے بن سکتاہے آپ لوگ محنت کے ذریعے اپنی خواہشات پوری کر سکتے ہیں۔ ایک شاگردبولا…”مگر جناب میرے ابو کہتے ہیں کہ میرے خواہش پوری نہیں ہو سکتی“ ”تمہاری کیا خواہش ہے“استاد نے پو چھا ”جناب میں لیڈی ڈاکٹر بننا چاہتاہوں“ شاگرد نے معصومیت سے جواب دیا۔تن دے تنایک میراثی ساری عمر لوگوں کی خدمت کرتے کرتے مر گیا۔ لواحقین میں ایک بیوہ ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑے۔ غربت کی ماری بیوہ بے چاری نے محنت مشقت کر کے بیٹے اور بیٹی کو پروان چڑھایا۔ بیٹے نے کمانا شروع کیا تو بڑھیا کو ا س کی شادی کا ارمان ہوا، وہ روز ا س کی شادی کا قصہ چھیڑ دیتی۔ ایک دن بیٹا تنگ آکر بولا۔ ”بے بے توں خواہ مخواہ ای گھروچ چوتھا جی لیان دی تیاری کر دی ایں… اساں سدا تن بندے ای رہنا اے!“ بے بے بولی۔ ”ماں صدقے… تیری بیوی آوے گی تے اسیں گھر وچ چار بندے ہوجاں گے!“ بیٹا کہنے لگا،”بے بے… اونی دیر نوں بھین دی شادی ہو جائے گی… اسیں فیر تن دے تن۔“ بے بے خوش فہم تھی، کہنے لگی”پتر… فیر تیرے گھر پتر ہو جائے گا… اسیں فیر چار ہو جاں گے!“ بیٹا قنوطی تھا، کہنے لگا،”بے بے… اوس ویلے تک توں مر جانا ایں… اسیں فیر تن دے تن۔“فیرمرگئیپر نام سنگھ بیٹھا رو رہا تھا۔ ایک دوست نے رونے کی وجہ پوچھی تو سر دار جی کہنے لگے۔ ”بھائیا میری ماں مر گئی اے… اوہدے غم وچ رو ھیا واں!“ دوست نے تعزیت کی اور چلا گیا ، دو دن بعد ا س نے دیکھا کہ پر نام سنگھ پھر بیٹھا رو رہاہے، دوست نے دو بارہ رونے کی وجہ پو چھی تو سر دار جی نے کہا ”بھائیا… آج میرے وڈے بھرا دا ٹیلی فون آیا سی… اوہدی ماں وی مر گئی اے… آج اوہدے غم وچ رورہیا واں!“
دودھ والاایک صاحب نے ایک طوطا پال رکھا تھا۔ ایک دن وہ صاحب گھر پر نہ تھے کہ دودھ والا آگیا اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اند رسے پھر آواز آئی”کون؟“ باہر سے اس نے پھر جواب دیا ”دودھ والا“ اور انتظار کرنے لگا کہ ابھی کوئی دروازہ کھول دے گا۔ آخر ا س نے تنگ آکر کہاں بھائی صاحب میں تو باہر دودھ والا ہوں اندر آپ کون ہیں؟ اندر سے فوراً آوازآئی”دودھ والا۔“
بلیڈیہودیوں کے بار ے میں یہ بات مشہور ہے کہ بڑے کنجوس ہوتے ہیں۔ ایک یہودی لڑکامحاذ جنگ سے واپس آیا، استقبال کے لئے آئے ہوئے اپنے باپ اور بڑے بھائی کی بڑھی ہوئی داڑھیاں دیکھ کر اسے بہت تعجب ہوا اور اس نے حیران ہو کر پوچھا”یہ آپ لوگوں نے داڑھیاں کیوں بڑھا رکھی ہیں۔“ ”بیٹے تمہیں یاد نہیں، بلیڈ تم اپنے ساتھ لے گئے تھے۔“باپ نے جواب دیا۔
قابل دادوہ کسی بہانے فوج سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے کئی مہینے اس امر پر غور کیا۔ بالآخر ایک تجویز سوجھی۔ وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچا او رکہنے لگا۔ ”ڈاکٹر صاحب میرے بصارت بہت ہی خراب ہے بالکل کام نہیں کرتی۔“ ڈاکٹر نے کہا۔” اس کرسی پر بیٹھ جاؤ، پھر تفصیل سے تمہاری بات سنتاہوں۔“ ”کون سی کرسی؟“ ڈاکٹر نے اسے بازو سے پکڑ کر ایک کرسی پر بٹھا دیا اور پو چھا۔”کیا تمہیں کرسی نظر نہیں آتی؟“ ”بالکل نہیں۔“ ”اچھا اب پانچویں سطر پڑھو۔“ڈاکٹر نے دیوار پر لگے ہوئے ایک چارٹ کی طرف اشارہ کیا۔ ”کہاں سے پڑھوں؟“ ”چارٹ کی طرف دیکھو۔“ ”کون سا چارٹ؟“ ”وہی چارٹ جو سامنے دیوار سے لٹک رہا ہے۔“ ”لیکن دیوار کہاں ہے؟“ یہ دیکھ کر ڈاکٹر کو یقین ہو گیا کہ اس کی بصارت واقعی ختم ہو چکی ہے اور اسے فوج سے ہمیشہ کے لئے چھٹی دے دی۔ جونہی وہ باہر نکلا اس نے زور سے ایک قہقہہ لگایا۔ وہ بہت خوش تھا۔ وہ نزدیک ہی ایک سینما ہاؤس میں فلم دیکھنے چلا گیا۔ جب فلم ختم ہوئی تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ ڈاکٹر جس نے اسے ضعف بصارت کی وجہ سے ڈسچارج کیا تھا اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھ کر پہچان بھی لیا تھا لیکن اس نے کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار کئے بغیر کہا۔ ”کیوں صاحب! یہ بس کہاں جائے گی؟“
چابیسوندھا سنگھ اپنے علاقے کا حکمران تھا، اسے ایک لڑائی پر جانا پڑ گیا۔ اس نے اپنی بیویوں، لونڈیوں او رمال و دولت کو ایک حویلی میں بند کیا اور باہر سے تالا لگا دیا، پھر اس نے اپنے سب سے قریبی دوست کو بلایا، چابی اس کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگا”یار میں جنگ تے جا رہیا وہاں… پتہ نئیں بچ کے آؤناں ہندا اے کے نئیں… میں اپنی حویلی دی چابی تیرے حوالے کر کے جارھیا واں… اگر میں جنگ وچ مر گیا تے فیرتوں میری حویلی داتا لاکھولیں… میری بیویاں نال ویاں کر لئیں … سار امال وی توں ای رکھ لئیں“ دوست بہت جذباتی ہو گیا، مگر سوندھا سنگھ کے اصرار پر اس نے چابی رکھ لی۔ اگلے روز سوندھا سنگھ میدان جنگ کو روانہ ہوا، ابھی وہ اپنی راجدھانی سے چند میل دور ہی گیا تھا کہ اس کا دوست گھوڑا دوڑاتا ہوا اس سے آملا، گھوڑے سے اتر کر ہانپتے ہوئے بولا، ”یارتوں مینوں غلط چابی دے کے آگیا ویں… ایہہ تالے وچ لگ ای نئی رہی!“صرف ایک گولیایک سر دار کی بیوی دھاڑ یں مار کر روتی ہوئی گھر سے نکلی، محلے کے لوگ اکٹھے ہوئے، کلونت کور بین کرتے ہوئے مسلسل یہی کہہ رہی تھی،”وے لوکو… میرے سر دار سائیں، میرے بالاں دا پیو، میر اخاوند بلونت سنگھ مر گیا جے۔“ لو گ کلونت کور کو تسلیاں دے رہے تھے اور وہ مسلسل روئے جا رہی تھی، آخر ایک بوڑھی مائی آگے بڑھی اور کلونت کو ر کو گلے لگا کر پو چھا،”دھیے… بلونت سنگھ نے مرن لگیاں کج کہیا سی؟ کلونت کور اسی طرح روتے ہوئے بولی”آہو… ماسی! کلونت کور نے جواب دیا”ماسی اونہے آکھیا سی … فی کلونت کور مینوں دو جی گولی نہ ماریں، میں اک نال ای مر جا واں گا۔زبان بندیشادی کی چھٹی سالگرہ پر کراچی کا ایک جوڑا تفریح کے لئے پہلی مرتبہ سوات گیا۔سوات کی خوبصورتی سے دونوں بہت خوش تھے۔ وادی کا لام پہنچے تو بیوی نے کہا کہ یہاں کی مسحور کن فضا حسین مناظر نے تو میری زبان گنگ کر دی ہے۔ شوہر نے کہا۔میرا خیال ہے ہم گلشن والا فلیٹ بیچ کر یہیں ایک مکان بنا لیتے ہیں۔زبان کی اہمیتایک دفعہ ایک چو ہیا اپنے بچوں کے ساتھ جا رہی تھی کہ راستے میں ایک بلی آگئی، چوہیا نے فوراً زور سے کتے کی طرح بھونکنا شروع کر دیا۔ بلی فوراً بھاگ گئی۔ یہ دیکھ کر چوہیا نے اپنے بچوں کو نصیحت کی”دیکھا بچو دنیا میں مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان کتنی ضروری ہے۔“ہمدردی کے دو بولایک سیاح ہوٹل میں گیا تو بیرے نے آکر آرڈر لیا۔ سیاح نے کہا:فرائی مچھلی اور ہمدردی کے دوبول۔“ بیر امچھلی لے آیا اور پو چھا”اور کچھ؟“ سیاح نے جواب دیا! ہمدردی کے دو بول۔“ بیرا اپنا منہ سیاح کے کان کے پاس لے کر گیا اور بولا: ”مچھلی نہ کھانا دو دن کی باسی ہے۔“پورے سال کا ریٹانہوں نے لاش ورثہ کے حوالے کی تو سپاہی نے کہا۔ اوئے اس قیدی کی سزا ختم ہونے میں تین مہینے باقی ہیں۔ سزا پوری کرنے کے لئے اپناآدمی دے دو… یا پھر… چائے پانی دے دو“۔پر نام سنگھ نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پروفیسر صاحب نے پہلے دن لیکچر دیتے ہوئے کہا: ”دیکھو…منڈیاں نوکڑیاں دے ہوسٹل ول جان دی اجازت نئیں، جنیں کسی کڑی نوں چھیڑیاں، اونہوں سو روپیہ جرمانہ ہوئے گا، دوجی واری چھیڑن تے دو سو روپیہ جرمانہ ہوئے گا، تیجی واری چھیڑن تے پنچ سو روپیہ جرمانہ ہوئے گا۔“ یہ سن کر پر انم سنگھ سیٹ سے کھڑا ہوا اور پروفیسر صاحب سے پو چھا: ”پروفیسرصاحب… ایہہ واری واری دی گل چھڈو… سانوں دسو پورے سال دا کی ریٹ اے؟ترکیب نمبر9وہ نیا نیا پولیس میں بھرتی ہو اتھا، ا س کی ڈیوٹی جیل میں لگائی گئی۔ ایک دن ایک قیدی فوت ہوا۔ انسپکٹر نے اسے بلایا او رکہا”لاش ورثہ کے حوالے کرو… اور ہاں … چائے پانی لیتے آنا۔“ وہ بڑا حیران و پریشان ہوا۔ انسپکٹر سمجھ گیا اور ایک پرانے سپاہی کو ا س کے ساتھ بھیجتے ہوئے کہا۔” دیکھو یہ کیسے چائے پانی وصول کرتاہے۔“ بچتایک شخص نے اپنے کنجوس پڑوسی سے کہا۔”ارے کیا ہو گیا اتنے لال پیلے کیوں ہو رہے ہو؟“ پڑوسی نے کہا”ننھے نے آج نیا جوتا پہنا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ایک کی بجائے دو سیڑھیاں طے کر کے اوپر جانا تاکہ جوتے کا تلا کم گھسے لیکن وہ کم بخت دو کی بجائے تین سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ نتیجہ یہ ہو اکہ پتلون پھٹ گئی۔“نجاتتمہارے شوہر کی طبیعت اب کیسی ہے؟ مجھے تو شوہر سے نجات مل گئی۔ تم نے کوئی علاج بھی کیا؟ اگر علاج کرتی تو نجات کیسے ملتی؟چیمپینکرکٹ کے ایک کھلاڑی نے اپنی دلہن سے کہا۔شنا! آج ہماری زندگی کا ایک نیا ٹیسٹ میچ شروع ہونے والا ہے، میرے والدین کو تمہیں امپائر کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا، چاہے وہ تمہیں ایل بی ڈبلیو دے کر واپس پوئیلین ہی کیوں نہ بھیج دیں۔ ہم اپنی محبت کے رولز سے اپنے گھر کو مضبوط پچ کی طرح بنائیں گے، میری بہنیں مجھ سے رن آؤٹ کی اپیل کر دیں اور بھائی اسٹمپ آؤٹ کی تو ایسے میں اپنی خدمت کی بالز پھینک کر میرے گھر والوں کا دل جیتنے کی کوشش کرنا، تم اپنی خدمت اور محبت کے چوکے چھکے لگا کر اپنی وفاداری سے زیادہ سے زیادہ رنز بنا کر ہمارے خاندان میں ورلڈ چیمپئین بن سکتی ہو۔عورتوں کی سیٹسر دار پر نام سنگھ نے ایک روز ، دن ڈھلنے سے پہلے ہی شراب چڑھالی تھی، اسے کہیں جانا تھا، بس میں سوار ہوا تو اسے کوئی سیٹ خالی نظر نہ آئی، عورتوں کے لئے مخصوص ایک سیٹ خالی نظر آئی، وہ اس پر ہی براجمان ہو گیا۔ اگلے سٹاپ پر ایک سر دارنی بس میں چڑھی تو ایک مرد کو عورتوں کی سیٹ پر بیٹھے دیکھ کر آگ بگولا ہو گئی، کہنے لگی ”بھائی صاحب… ایہہ سیٹ تیویاں (عورتوں) واسطے ہے“ پرنام سنگھ بولا”تے فیر… میں کیہہ کراں“ سر دارنی کو اور غصہ آیا، سر دار جی کے سر کے اوپر لگی تختی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی بھائی صاحب… اوہ دیکھو… تہاڈے سرتے لکھیا ہے، ایہہ عورتوں دی سیٹ ہے!“ پر نام سنگھ اسی اطمینان سے بولا”بھین جی… فیر جتھے لکھیا ہو یا اے… تسی او تھے ای بیٹھ جاؤ!"مرغاباپ(حیرانی سے) عرفان تم مرغا کیوں بنے ہوئے ہو۔ بیٹا… ابا جان ! آپ ہی نے تو کہا تھا جو کام سکول میں کرایا جاتا ہے اسے گھر پر دہرایا کرو۔شیوایک آدمی (دوسرے سے )تم دن میں کتنی مرتبہ شیو کرتے ہو؟ دوسرا آدمی:چالیس پچاس مرتبہ۔ پہلا آدمی: حیرت سے ، کیا تم پاگل ہو؟ دوسرا آدمی :جی نہیں میں حجام ہوں۔آٹھ دنجج۔ بڑے شرم کی بات ہے تم نے ایک ہفتے کے دوران سات چوریاں کیں۔ ملزم ۔ جی اس میں شرم کی کون سی بات ہے۔ ہفتے میں سات ہی تو دن ہوتے ہیں آٹھ ہوتے تو آٹھ چوریاں کر کے دکھا دیتا۔یتیم خانہدودوست ایک قبرستان سے گزر رہے تھے ان میں سے ایک دوست ایک قبر کے ساتھ کھڑے ہو کر بولا “یہ قبر بے چارے مزمل کی ہے۔ بہت اچھا آدمی تھا مرتے وقت بیچارا اپنا سب کچھ یتیم خانے کے حوالے کر گیا۔ دوسرے دوست نے کہا“ بھلا ہمیں بھی تو معلوم ہو کہ کیا کچھ دے گئے؟ …پہلے دوست نے جواب دیا یہی کوئی چار لڑکے اور چھ لڑکیاں“کار ڈرائیوایک چھوٹے بچے نے اپنے والد سے پوچھا“ ابو؟کیا ہم ہوائی جہاز کے ذریعے اللہ میاں کے پاس پہنچ سکتے ہیں، ”باپ نے جواب دیا“ ارے اللہ میاں کے پاس تو کار میں بیٹھ کر بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ کار تمہاری امی ڈرائیو کر رہی ہو۔                                                     "Writer   :    "ABDULLAH ARSHAD    

No comments:

Post a Comment