Friday, 12 September 2014

KIDS JOKES

                                ""JOKES""
                                               Writer   :  " ABDULLAH ARSHAD "

مرنے کا فائدہ
ایک خاتون نے دوسری خاتون سے پو چھا۔”جنت میں مردوں کو تو حوریں ملیں گی مگر عورتوں کو کیا ملے گا؟“ ”یہی اپنے اپنے خاوند۔“ دوسری عورت نے جواب میں بتایا۔ پہلی عورت نے یہ سنا تو تلخی سے بولی۔”دفع کرو پھر مرنے کا کیا فائدہ۔“پڑتالپرنام سنگھ لدھیانہ یونیورسٹی کا امتحان دے رہا تھا۔ امتحانی پرچہ کچھ یوں بنا ہوا تھا کہ سوال جواب صحیح یا غلط لکھ کر دینا تھا۔ پرچہ خاصا طویل تھا۔ پرنام سنگھ بہت انہماک سے پرچہ حل کرنے میں جٹا ہوا تھا۔ نگران ٹہلتا ہوا پرنام سنگھ کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا کہ پرنام سنگھ نے ایک روپے کا سکہ ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے۔ ہر سوال پر وہ اسے اُچھا لتاہے، سکے کا رخ دیکھتاہے اور سوال کا جواب غلط یا صحیح لکھ دیتاہے۔ نگران بہت حیران ہوا، اس نے پوچھا، ”کا کا جی… ایہہ کیہہ کر رہے او؟“ پرنام سنگھ کہنے لگا”سرجی!پرچہ حل کر رہیا واں!“ نگران کہنے لگا،”پرتسی بار بار روپیہ سٹ کے”ٹاس“ کیوں کر رہے او؟“ پرنام سنگھ بولا،”سرجی! ایہہ سائنس اے! ڈیڑھ سو سوال نیں، میں ہر سوال تے ٹاس کرنا واں، سیدھا پاسا آوے تے جواب ٹھیک، پُٹھا پاسہ آوے تے جواب غلط، سائنس ایہہ کہندی اے کہ ایس طراں میرے ادھے جواب ضرور ٹھیک ہون گے!“ نگران پرنام سنگھ کے”سائنس“ کے علم سے بہت متاثر ہوا اور واپس چلا گیا۔ پرچے کا وقت ختم ہونے والاتھا تو وہ پھر پر نام سنگھ کے پاس آیا، دیکھا کہ پرنام سنگھ بار بار سکہ اچھال رہا ہے،ساتھ میں گالیاں بھی دے رہا ہے! اس نے پوچھا! ”کا کاجی… کیہہ گل اے ، بڑے غصے وچ او؟“ پڑتال کرن واسطے ٹاس کرناواں تے بھونتی دا جواب کجھ ہور آؤنداوے۔“
ماتمایک شخص اپنا رنگین ٹی وی اور وی سی آر اٹھائے سمندر کی طرف جا رہا تھا۔ راستے میں اس کا دوست ملا اور اس نے حیرانی سے پو چھا۔“ کیا ماجرا ہے؟“ وہ بولا۔”خو دکشی کرنے جا رہا ہوں اور ٹی وی، وی سی آر ساتھ لے کر ڈوبوں گا۔ میری بیوی مجھ پر نہ سہی ان چیزوں کی محرومی کا تو ماتم کرے گی۔“پرنام سنگھ، گورنام سنگھ اور ان کے دو دوستوں نے گاؤں میں اپنی زمین بیچی اور شہر میں ہوٹل بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شہر میں بہترین جگہ پر عالی شان ہوٹل بنایا مگر ایک مہینے تک ان کے ہوٹل میں ایک گاہک بھی نہ گھسا، کیوں؟ اس لئے کہ چاروں نے”پنڈ“ سے لا کر اپنے چار بوہلی کتے بھی ہوٹل کے دروازے پر باندھ دئیے تھے! پھر چاروں نے ہوٹل بیچ کر گاڑیاں مرمت کرنے کا گیراج بنانے کا فیصلہ کیا۔ ورکشاپ بنائی، ہر قسم کی مشینری لگائی، مگر ایک مہینے تک کوئی گاہک ان کے گیراج میں گاڑی مرمت کرانے نہ آیا! کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے گیراج دوسری منزل پر بنایا تھا! گیراج بیچ کر چاروں دوستوں نے ٹیکسی خریدی… ایک ماہ تک سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے مگر کوئی آدمی ان کی ٹیکسی میں نہ بیٹھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ چاروں سر دار ہر وقت اپنی ٹیکسی میں ہی سوار رہتے تھے! تنگ آکر سرداروں نے ٹیکسی سمندر میں پھینکنے کا فیصلہ کیا، سارا دن وہ ٹیکسی سمندر میں دھکیلنے کے لئے زور لگاتے رہے مگر ٹیکسی اپنی جگہ سے نہ ہلی! کیوں؟ اس لئے کہ دو آگے سے اور دو پیچھے ٹیکسی کو دھکا لگا رہے تھے!
کاروبارپرنام سنگھ، گورنام سنگھ اور ان کے دو دوستوں نے گاؤں میں اپنی زمین بیچی اور شہر میں ہوٹل بنانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے شہر میں بہترین جگہ پر عالی شان ہوٹل بنایا مگر ایک مہینے تک ان کے ہوٹل میں ایک گاہک بھی نہ گھسا، کیوں؟ اس لئے کہ چاروں نے”پنڈ“ سے لا کر اپنے چار بوہلی کتے بھی ہوٹل کے دروازے پر باندھ دئیے تھے! پھر چاروں نے ہوٹل بیچ کر گاڑیاں مرمت کرنے کا گیراج بنانے کا فیصلہ کیا۔ ورکشاپ بنائی، ہر قسم کی مشینری لگائی، مگر ایک مہینے تک کوئی گاہک ان کے گیراج میں گاڑی مرمت کرانے نہ آیا! کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے گیراج دوسری منزل پر بنایا تھا! گیراج بیچ کر چاروں دوستوں نے ٹیکسی خریدی… ایک ماہ تک سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے مگر کوئی آدمی ان کی ٹیکسی میں نہ بیٹھا۔ کیوں؟ اس لئے کہ چاروں سر دار ہر وقت اپنی ٹیکسی میں ہی سوار رہتے تھے! تنگ آکر سرداروں نے ٹیکسی سمندر میں پھینکنے کا فیصلہ کیا، سارا دن وہ ٹیکسی سمندر میں دھکیلنے کے لئے زور لگاتے رہے مگر ٹیکسی اپنی جگہ سے نہ ہلی! کیوں؟ اس لئے کہ دو آگے سے اور دو پیچھے ٹیکسی کو دھکا لگا رہے تھے!ست واریپر نام سنگھ نے نئی کار خریدی۔ پہلے روز ہی لانگ ڈرائیو کے لئے سڑک پر آگیا۔ گھر سے تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ کار ایک دودھ والے کی سائیکل سے ٹکرا گئی ، دودھ بیچنے والا موٹا پہلوان تھا۔ وہ نیچے گرا ، ہلکی پھلکی چوٹیں آئیں ، دودھ سڑک پر بہہ گیا، سائیکل کا ”چمٹا “ ٹیڑھا ہو گیا۔ جتنی دیر میں پر نام سنگھ نے گاڑی روکی، پہلوان اٹھ کر اس تک پہنچ گیا۔ پر نام سنگھ کو گریبان سے کھینچ کر کار سے باہر نکالا اور خوب پھینٹی لگائی، اچھی طرح دھلائی کرنے کے بعد وہ پرنام سنگھ سے بولا، ”ایہہ تے اونہاں سٹاں دا حساب سی، جیہڑیاں مینوں لگیاں! میر ادودھ ڈلیا، سائیکل دا چمٹا ونگاہو یا… اودے بدلے میں تیری گڈی بھناں گا۔“ یہ کہہ کر پہلوان نے ڈنڈا اٹھایا اور کار کی بتی توڑی دی۔ پر نام سنگھ منت سماجت کے لئے آگے بڑھا تو پہلوان نے زمین پر ایک لکیر کھینچی، پرنام سنگھ کو اس کے دوسری طرف کھڑ اکیا اور کہنے لگا، ”مینوں آرام نال گڈی بھن لین دے… جے تُوں لکیر ٹپی تے میں تینوں بھن دیاں گا۔“ یہ کہہ کر پہلوان جی نے گاڑی کی ایسی تیسی پھیرنا شروع کر دی۔ جب گاڑی، کار سے بسکٹ بن گئی تو وہ واپس پلٹا، دیکھا تو پر نام سنگھ کھڑا ہنس رہا تھا۔ ”اوئے میں تیری گڈی بھن دتی، توں فیروی ہس رہیا ایں، کیوں ؟“ پر نام سنگھ کہنے لگا،” میں دس دینا پہلوان جی… مینوں مارو گے تے نئیں؟“ پہلوان بولا، نئیں ماراں گا، توں گل دس!“ پر نام سنگھ کہنے لگا،”پہلوان جی… تساں مینوں کہیا سی توں لائن نئیں ٹپنی، جدوں تسی میری کار بھن رہے سو، میں ست واری لائن ٹپی، تہانوں پتہ ای نئیں لگا۔جہاز چلا رہا تھاہوائی جہاز کے ایک حادثے میں کوئی شخص زندہ نہ بچا۔ ماہرین جائے حادثہ پر پہنچے تو ہر چیزیوں تباہ ہو چکی تھی کہ حادثے کی وجوہات کا پتہ چلانا ممکن نہیں تھا۔ تباہ شدہ جہاز کے قریب کسی درخت پر ایک بندر بیٹھا تھا، جس کے گلے میں ائیر لائن کا ٹیگ لٹک رہا تھا۔ پتہ چلا کہ یہ بندر بھی تباہ ہونے والے جہاز کا مسافر تھا۔ اسے پکڑ لیا گیا۔ اشاروں کی زبان کے ایک ماہر کی خدمات حاصل کی گئیں، تاکہ وہ بندر سے بات چیت کر کے کچھ معلوم کر سکے! تفتیشی بورڈ نے ماہر کے ذریعے بندرسے سوال کیا، ”حادثہ کتنے بجے ہو اتھا؟“ اشاروں کی زبان والے ماہر نے سوال بندر کو سمجھایا، بندر نے سوال سن کر اپنی کلائی کی طرف اشارہ کیا، پھر دونوں ہاتھوں کی دس انگلیاں کھڑی کیں، اس کے بعد اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر اپنے گال پر رکھے اور سر کو ٹیڑھا کر لیا۔ ماہرین نے اشارہ سمجھ کر بتایا”بندر کہہ رہا ہے حادثہ رات کے دس بجے ہوا۔“ تفتیشی بورڈ نے اگلا سوال کیا،” اس وقت مسافر کیا کر رہے تھے؟“ بندر نے پھر دونوں ہاتھ اپنے گال کے ساتھ رکھ کر سر کو ٹیڑھا کیا، ماہر نے پھر بتایا،”بندر کہہ رہا ہے مسافر سو رہے تھے!“ ائیر سوسٹسیں کیا کر رہی تھیں؟ بندر نے کہا”سو رہی تھیں۔“ تفتیش کرنے والوں نے پو چھا”پائلٹ کیا کر رہاتھا؟“ بند رنے پھر وہی جواب دیا”سو رہا تھا۔“ تفتیشی ٹیم میں سے ایک نے بندر سے پو چھا،”جب سب لوگ سو رہے تھے تو تم کیا کر رہے تھے؟“ بندر نے دونوں ہاتھوں کو گھماتے ہوئے اشارے سے بتایا،”جہاز چلا رہا تھا۔“
آگایک آدمی نے فائرسٹیشن فون کیا اور بولا”دیکھئے میں نے حال ہی میں اپنا باغ سنوارا ہے میں نے اس میں بیش قیمتی پودے لگائے ہیں۔“ ”کیا اس میں آگ لگ گئی ہے۔“دوسری طرف سے پو چھا گیا۔ ”کچھ پودے تو بالکل ہی نایاب ہیں۔ میں نے انہیں بڑی مشکل سے حاصل کیا ہے“ ”دوسری طرف سے بڑی غصے بھری آواز آئی۔”دیکھئے جناب! یہ فائرسٹیشن ہے، گل فروشی کی دکان نہیں۔“ ”معلوم ہے مجھے! ذرا غور سے میری بات سنئیے، میرے پڑوس میں آگ لگ گئی ہے اور میں نہیں چاہتاکہ جب آپ لوگ آگ بجھانے آئیں تو میرے باغ اور پودوں کو نقصان پہنچائیں۔“
چھڑیایل بی ڈبلیو کی پانچویں اپیل بھی منظو رنہ ہوئی تو باؤلر کو تاؤ آگیا۔ وہ ایمپائر کی طرف پلٹا اور غصے سے بولا۔ جناب عالی! یہ تو بتائیے آپ کی چھڑی کہاں ہے؟“ ”چھڑی؟ کیسی چھڑی ، میرے پاس کوئی چھڑی نہیں۔“ایمپائر نے حیرت سے کہا۔ ”کمال ہے۔“ باؤلر غرایا۔” میں نے کسی اندھے کو بغیر چھڑی کے نہیں دیکھا۔“
فینسی شوایک تہوار پر فینسی ڈریس شو کے لئے ایک صاحب نے کتے کا بہروپ بھر رکھا تھا اور وہ بالکل کتا دکھائی دے رہا تھا۔ جب وہ ڈریس شو میں شرکت کے لئے جا رہے تھے تو راستے میں آوارہ کتے پکڑنے والے شخص نے انہیں دبوچ لیا اور گھسیٹ کر بلدیہ کے ٹرک کی طرف لے جانے لگا۔ وہ شخص چلانے لگاکہ میں نے فینسی ڈریس شو کے لئے یہ بہروپ دھار رکھا ہے۔ ”بکواس بند کرو۔“کتے پکڑنے والے نے کہا۔”میں نے صبح سے اب تک بارہ کتے پکڑے ہیں، ہر کتے نے اسی قسم کی بات کی ہے۔“  تنخواہ میں اضافہایک ملازم کو تنخواہ ملی تو اس نے سوچا بیوی کے حوالے کرنے سے پہلے کم ازکم رقم تو گن لیں۔ جب ا س نے رقم گنی تو اس میں سو روپے زیادہ تھے۔ وہ فوراً کیشئر کے پاس پہنچا اور بولا آپ نے غلطی سے سو روپے زیادہ دے دئیے ہیں۔ کیشئر نے رقم گنی او رکہا رقم بالکل ٹھیک ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ آپ کی تنخواہ میں گزشتہ تین مہینوں سے سو روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ وہ شخص حیرانگی سے بولا۔”کمال ہے یار۔ میری بیوی نے تو مجھے بالکل بتایا ہی نہیں…“خواہشاستاد کلاس میں سمجھاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ محنت کر کے آدمی جو چاہے بن سکتاہے آپ لوگ محنت کے ذریعے اپنی خواہشات پوری کر سکتے ہیں۔ ایک شاگردبولا…”مگر جناب میرے ابو کہتے ہیں کہ میرے خواہش پوری نہیں ہو سکتی“ ”تمہاری کیا خواہش ہے“استاد نے پو چھا ”جناب میں لیڈی ڈاکٹر بننا چاہتاہوں“ شاگرد نے معصومیت سے جواب دیا۔تن دے تنایک میراثی ساری عمر لوگوں کی خدمت کرتے کرتے مر گیا۔ لواحقین میں ایک بیوہ ، ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑے۔ غربت کی ماری بیوہ بے چاری نے محنت مشقت کر کے بیٹے اور بیٹی کو پروان چڑھایا۔ بیٹے نے کمانا شروع کیا تو بڑھیا کو ا س کی شادی کا ارمان ہوا، وہ روز ا س کی شادی کا قصہ چھیڑ دیتی۔ ایک دن بیٹا تنگ آکر بولا۔ ”بے بے توں خواہ مخواہ ای گھروچ چوتھا جی لیان دی تیاری کر دی ایں… اساں سدا تن بندے ای رہنا اے!“ بے بے بولی۔ ”ماں صدقے… تیری بیوی آوے گی تے اسیں گھر وچ چار بندے ہوجاں گے!“ بیٹا کہنے لگا،”بے بے… اونی دیر نوں بھین دی شادی ہو جائے گی… اسیں فیر تن دے تن۔“ بے بے خوش فہم تھی، کہنے لگی”پتر… فیر تیرے گھر پتر ہو جائے گا… اسیں فیر چار ہو جاں گے!“ بیٹا قنوطی تھا، کہنے لگا،”بے بے… اوس ویلے تک توں مر جانا ایں… اسیں فیر تن دے تن۔“فیرمرگئیپر نام سنگھ بیٹھا رو رہا تھا۔ ایک دوست نے رونے کی وجہ پوچھی تو سر دار جی کہنے لگے۔ ”بھائیا میری ماں مر گئی اے… اوہدے غم وچ رو ھیا واں!“ دوست نے تعزیت کی اور چلا گیا ، دو دن بعد ا س نے دیکھا کہ پر نام سنگھ پھر بیٹھا رو رہاہے، دوست نے دو بارہ رونے کی وجہ پو چھی تو سر دار جی نے کہا ”بھائیا… آج میرے وڈے بھرا دا ٹیلی فون آیا سی… اوہدی ماں وی مر گئی اے… آج اوہدے غم وچ رورہیا واں!“
دودھ والاایک صاحب نے ایک طوطا پال رکھا تھا۔ ایک دن وہ صاحب گھر پر نہ تھے کہ دودھ والا آگیا اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اند رسے پھر آواز آئی”کون؟“ باہر سے اس نے پھر جواب دیا ”دودھ والا“ اور انتظار کرنے لگا کہ ابھی کوئی دروازہ کھول دے گا۔ آخر ا س نے تنگ آکر کہاں بھائی صاحب میں تو باہر دودھ والا ہوں اندر آپ کون ہیں؟ اندر سے فوراً آوازآئی”دودھ والا۔“
بلیڈیہودیوں کے بار ے میں یہ بات مشہور ہے کہ بڑے کنجوس ہوتے ہیں۔ ایک یہودی لڑکامحاذ جنگ سے واپس آیا، استقبال کے لئے آئے ہوئے اپنے باپ اور بڑے بھائی کی بڑھی ہوئی داڑھیاں دیکھ کر اسے بہت تعجب ہوا اور اس نے حیران ہو کر پوچھا”یہ آپ لوگوں نے داڑھیاں کیوں بڑھا رکھی ہیں۔“ ”بیٹے تمہیں یاد نہیں، بلیڈ تم اپنے ساتھ لے گئے تھے۔“باپ نے جواب دیا۔
قابل دادوہ کسی بہانے فوج سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے کئی مہینے اس امر پر غور کیا۔ بالآخر ایک تجویز سوجھی۔ وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچا او رکہنے لگا۔ ”ڈاکٹر صاحب میرے بصارت بہت ہی خراب ہے بالکل کام نہیں کرتی۔“ ڈاکٹر نے کہا۔” اس کرسی پر بیٹھ جاؤ، پھر تفصیل سے تمہاری بات سنتاہوں۔“ ”کون سی کرسی؟“ ڈاکٹر نے اسے بازو سے پکڑ کر ایک کرسی پر بٹھا دیا اور پو چھا۔”کیا تمہیں کرسی نظر نہیں آتی؟“ ”بالکل نہیں۔“ ”اچھا اب پانچویں سطر پڑھو۔“ڈاکٹر نے دیوار پر لگے ہوئے ایک چارٹ کی طرف اشارہ کیا۔ ”کہاں سے پڑھوں؟“ ”چارٹ کی طرف دیکھو۔“ ”کون سا چارٹ؟“ ”وہی چارٹ جو سامنے دیوار سے لٹک رہا ہے۔“ ”لیکن دیوار کہاں ہے؟“ یہ دیکھ کر ڈاکٹر کو یقین ہو گیا کہ اس کی بصارت واقعی ختم ہو چکی ہے اور اسے فوج سے ہمیشہ کے لئے چھٹی دے دی۔ جونہی وہ باہر نکلا اس نے زور سے ایک قہقہہ لگایا۔ وہ بہت خوش تھا۔ وہ نزدیک ہی ایک سینما ہاؤس میں فلم دیکھنے چلا گیا۔ جب فلم ختم ہوئی تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ ڈاکٹر جس نے اسے ضعف بصارت کی وجہ سے ڈسچارج کیا تھا اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے دیکھ کر پہچان بھی لیا تھا لیکن اس نے کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار کئے بغیر کہا۔ ”کیوں صاحب! یہ بس کہاں جائے گی؟“
چابیسوندھا سنگھ اپنے علاقے کا حکمران تھا، اسے ایک لڑائی پر جانا پڑ گیا۔ اس نے اپنی بیویوں، لونڈیوں او رمال و دولت کو ایک حویلی میں بند کیا اور باہر سے تالا لگا دیا، پھر اس نے اپنے سب سے قریبی دوست کو بلایا، چابی اس کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگا”یار میں جنگ تے جا رہیا وہاں… پتہ نئیں بچ کے آؤناں ہندا اے کے نئیں… میں اپنی حویلی دی چابی تیرے حوالے کر کے جارھیا واں… اگر میں جنگ وچ مر گیا تے فیرتوں میری حویلی داتا لاکھولیں… میری بیویاں نال ویاں کر لئیں … سار امال وی توں ای رکھ لئیں“ دوست بہت جذباتی ہو گیا، مگر سوندھا سنگھ کے اصرار پر اس نے چابی رکھ لی۔ اگلے روز سوندھا سنگھ میدان جنگ کو روانہ ہوا، ابھی وہ اپنی راجدھانی سے چند میل دور ہی گیا تھا کہ اس کا دوست گھوڑا دوڑاتا ہوا اس سے آملا، گھوڑے سے اتر کر ہانپتے ہوئے بولا، ”یارتوں مینوں غلط چابی دے کے آگیا ویں… ایہہ تالے وچ لگ ای نئی رہی!“صرف ایک گولیایک سر دار کی بیوی دھاڑ یں مار کر روتی ہوئی گھر سے نکلی، محلے کے لوگ اکٹھے ہوئے، کلونت کور بین کرتے ہوئے مسلسل یہی کہہ رہی تھی،”وے لوکو… میرے سر دار سائیں، میرے بالاں دا پیو، میر اخاوند بلونت سنگھ مر گیا جے۔“ لو گ کلونت کور کو تسلیاں دے رہے تھے اور وہ مسلسل روئے جا رہی تھی، آخر ایک بوڑھی مائی آگے بڑھی اور کلونت کو ر کو گلے لگا کر پو چھا،”دھیے… بلونت سنگھ نے مرن لگیاں کج کہیا سی؟ کلونت کور اسی طرح روتے ہوئے بولی”آہو… ماسی! کلونت کور نے جواب دیا”ماسی اونہے آکھیا سی … فی کلونت کور مینوں دو جی گولی نہ ماریں، میں اک نال ای مر جا واں گا۔زبان بندیشادی کی چھٹی سالگرہ پر کراچی کا ایک جوڑا تفریح کے لئے پہلی مرتبہ سوات گیا۔سوات کی خوبصورتی سے دونوں بہت خوش تھے۔ وادی کا لام پہنچے تو بیوی نے کہا کہ یہاں کی مسحور کن فضا حسین مناظر نے تو میری زبان گنگ کر دی ہے۔ شوہر نے کہا۔میرا خیال ہے ہم گلشن والا فلیٹ بیچ کر یہیں ایک مکان بنا لیتے ہیں۔زبان کی اہمیتایک دفعہ ایک چو ہیا اپنے بچوں کے ساتھ جا رہی تھی کہ راستے میں ایک بلی آگئی، چوہیا نے فوراً زور سے کتے کی طرح بھونکنا شروع کر دیا۔ بلی فوراً بھاگ گئی۔ یہ دیکھ کر چوہیا نے اپنے بچوں کو نصیحت کی”دیکھا بچو دنیا میں مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان کتنی ضروری ہے۔“ہمدردی کے دو بولایک سیاح ہوٹل میں گیا تو بیرے نے آکر آرڈر لیا۔ سیاح نے کہا:فرائی مچھلی اور ہمدردی کے دوبول۔“ بیر امچھلی لے آیا اور پو چھا”اور کچھ؟“ سیاح نے جواب دیا! ہمدردی کے دو بول۔“ بیرا اپنا منہ سیاح کے کان کے پاس لے کر گیا اور بولا: ”مچھلی نہ کھانا دو دن کی باسی ہے۔“پورے سال کا ریٹانہوں نے لاش ورثہ کے حوالے کی تو سپاہی نے کہا۔ اوئے اس قیدی کی سزا ختم ہونے میں تین مہینے باقی ہیں۔ سزا پوری کرنے کے لئے اپناآدمی دے دو… یا پھر… چائے پانی دے دو“۔پر نام سنگھ نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو پروفیسر صاحب نے پہلے دن لیکچر دیتے ہوئے کہا: ”دیکھو…منڈیاں نوکڑیاں دے ہوسٹل ول جان دی اجازت نئیں، جنیں کسی کڑی نوں چھیڑیاں، اونہوں سو روپیہ جرمانہ ہوئے گا، دوجی واری چھیڑن تے دو سو روپیہ جرمانہ ہوئے گا، تیجی واری چھیڑن تے پنچ سو روپیہ جرمانہ ہوئے گا۔“ یہ سن کر پر انم سنگھ سیٹ سے کھڑا ہوا اور پروفیسر صاحب سے پو چھا: ”پروفیسرصاحب… ایہہ واری واری دی گل چھڈو… سانوں دسو پورے سال دا کی ریٹ اے؟ترکیب نمبر9وہ نیا نیا پولیس میں بھرتی ہو اتھا، ا س کی ڈیوٹی جیل میں لگائی گئی۔ ایک دن ایک قیدی فوت ہوا۔ انسپکٹر نے اسے بلایا او رکہا”لاش ورثہ کے حوالے کرو… اور ہاں … چائے پانی لیتے آنا۔“ وہ بڑا حیران و پریشان ہوا۔ انسپکٹر سمجھ گیا اور ایک پرانے سپاہی کو ا س کے ساتھ بھیجتے ہوئے کہا۔” دیکھو یہ کیسے چائے پانی وصول کرتاہے۔“ بچتایک شخص نے اپنے کنجوس پڑوسی سے کہا۔”ارے کیا ہو گیا اتنے لال پیلے کیوں ہو رہے ہو؟“ پڑوسی نے کہا”ننھے نے آج نیا جوتا پہنا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ایک کی بجائے دو سیڑھیاں طے کر کے اوپر جانا تاکہ جوتے کا تلا کم گھسے لیکن وہ کم بخت دو کی بجائے تین سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ نتیجہ یہ ہو اکہ پتلون پھٹ گئی۔“نجاتتمہارے شوہر کی طبیعت اب کیسی ہے؟ مجھے تو شوہر سے نجات مل گئی۔ تم نے کوئی علاج بھی کیا؟ اگر علاج کرتی تو نجات کیسے ملتی؟چیمپینکرکٹ کے ایک کھلاڑی نے اپنی دلہن سے کہا۔شنا! آج ہماری زندگی کا ایک نیا ٹیسٹ میچ شروع ہونے والا ہے، میرے والدین کو تمہیں امپائر کی حیثیت سے قبول کرنا ہوگا، چاہے وہ تمہیں ایل بی ڈبلیو دے کر واپس پوئیلین ہی کیوں نہ بھیج دیں۔ ہم اپنی محبت کے رولز سے اپنے گھر کو مضبوط پچ کی طرح بنائیں گے، میری بہنیں مجھ سے رن آؤٹ کی اپیل کر دیں اور بھائی اسٹمپ آؤٹ کی تو ایسے میں اپنی خدمت کی بالز پھینک کر میرے گھر والوں کا دل جیتنے کی کوشش کرنا، تم اپنی خدمت اور محبت کے چوکے چھکے لگا کر اپنی وفاداری سے زیادہ سے زیادہ رنز بنا کر ہمارے خاندان میں ورلڈ چیمپئین بن سکتی ہو۔عورتوں کی سیٹسر دار پر نام سنگھ نے ایک روز ، دن ڈھلنے سے پہلے ہی شراب چڑھالی تھی، اسے کہیں جانا تھا، بس میں سوار ہوا تو اسے کوئی سیٹ خالی نظر نہ آئی، عورتوں کے لئے مخصوص ایک سیٹ خالی نظر آئی، وہ اس پر ہی براجمان ہو گیا۔ اگلے سٹاپ پر ایک سر دارنی بس میں چڑھی تو ایک مرد کو عورتوں کی سیٹ پر بیٹھے دیکھ کر آگ بگولا ہو گئی، کہنے لگی ”بھائی صاحب… ایہہ سیٹ تیویاں (عورتوں) واسطے ہے“ پرنام سنگھ بولا”تے فیر… میں کیہہ کراں“ سر دارنی کو اور غصہ آیا، سر دار جی کے سر کے اوپر لگی تختی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی بھائی صاحب… اوہ دیکھو… تہاڈے سرتے لکھیا ہے، ایہہ عورتوں دی سیٹ ہے!“ پر نام سنگھ اسی اطمینان سے بولا”بھین جی… فیر جتھے لکھیا ہو یا اے… تسی او تھے ای بیٹھ جاؤ!"مرغاباپ(حیرانی سے) عرفان تم مرغا کیوں بنے ہوئے ہو۔ بیٹا… ابا جان ! آپ ہی نے تو کہا تھا جو کام سکول میں کرایا جاتا ہے اسے گھر پر دہرایا کرو۔شیوایک آدمی (دوسرے سے )تم دن میں کتنی مرتبہ شیو کرتے ہو؟ دوسرا آدمی:چالیس پچاس مرتبہ۔ پہلا آدمی: حیرت سے ، کیا تم پاگل ہو؟ دوسرا آدمی :جی نہیں میں حجام ہوں۔آٹھ دنجج۔ بڑے شرم کی بات ہے تم نے ایک ہفتے کے دوران سات چوریاں کیں۔ ملزم ۔ جی اس میں شرم کی کون سی بات ہے۔ ہفتے میں سات ہی تو دن ہوتے ہیں آٹھ ہوتے تو آٹھ چوریاں کر کے دکھا دیتا۔یتیم خانہدودوست ایک قبرستان سے گزر رہے تھے ان میں سے ایک دوست ایک قبر کے ساتھ کھڑے ہو کر بولا “یہ قبر بے چارے مزمل کی ہے۔ بہت اچھا آدمی تھا مرتے وقت بیچارا اپنا سب کچھ یتیم خانے کے حوالے کر گیا۔ دوسرے دوست نے کہا“ بھلا ہمیں بھی تو معلوم ہو کہ کیا کچھ دے گئے؟ …پہلے دوست نے جواب دیا یہی کوئی چار لڑکے اور چھ لڑکیاں“کار ڈرائیوایک چھوٹے بچے نے اپنے والد سے پوچھا“ ابو؟کیا ہم ہوائی جہاز کے ذریعے اللہ میاں کے پاس پہنچ سکتے ہیں، ”باپ نے جواب دیا“ ارے اللہ میاں کے پاس تو کار میں بیٹھ کر بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ کار تمہاری امی ڈرائیو کر رہی ہو۔                                                     "Writer   :    "ABDULLAH ARSHAD    

story "lalch bry bla ha"


                 Writer    :    "ABDULLAH ARSHAD"

story '' mamo ka bhoot"


    Writer  :   ''ABDULLAH ARSHAD''

story '''knd zhan bcha bra insan bn gya''''


stiry ''''تبدیلی ۔۔۔۔ ایک خوشگوار تبدیلی جسے سب نے محسوس کیا تھا۔۔۔۔''''

تبدیلی ۔۔۔۔
ایک خوشگوار تبدیلی جسے سب نے محسوس کیا تھا۔۔۔۔

یہ جون کی تپتی دوپہر تھی ۔ سورج اپنے جوبن پر تھا۔ حمزہ کا حلق جیسے سوکھ گیاتھا۔ بھوک سے اس کی ہمت جواب دے رہی تھی ۔ ایسے میں حمزہ کو یاد آیا کہ فریج میں کولڈ ڈرنک اور کچھ کھانے کی چیزیں موجود ہیں

یہ جون کی تپتی دوپہر تھی ۔ سورج اپنے جوبن پر تھا۔ حمزہ کا حلق جیسے سوکھ گیاتھا۔ بھوک سے اس کی ہمت جواب دے رہی تھی ۔ ایسے میں حمزہ کو یاد آیا کہ فریج میں کولڈ ڈرنک اور کچھ کھانے کی چیزیں موجود ہیں۔ آج تو میرا روزہ ہے وہ بھی پہلا۔نہیں میں ایسانہیں کرسکتا۔ ہاں توکیا ہوا ویسے بھی یہاں کون دیکھ رہاہے ؟ لفظ گڈ مڈ ہونے لگے تھے …ہاں …ہاں …نہیں …اللّٰہ جی تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ دادی اماں اپنے کمرے میں عبادت کررہی ہیں۔ امی اور ابو ویسے گھر پر نہیں ہیں۔ فاریہ ابھی بہت چھوٹی ہے اس کو کیا پتا …اپنی چھوٹی بہن کا خیال آتے ہی حمزہ سوچ میں پڑ گیا ۔ فاریہ کو کیا پتا روزہ کیاہوتاہے ۔ اب حمزہ کے دل ودماغ ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ رہے تھے ۔ فریج کا دروازہ آدھا کھلا ہواتھا۔ فریج میں جو قسم قسم کے مشروبات اور لذیذ آم صاف نظر آ رہے تھے ۔ یہ ٹھنڈے مشروب سوکھے حلق کو سیراب کرسکتے تھے۔ اللّٰہ جی ناراض ہوں گے ۔ آخر اللّٰہ جی کی ناراضگی کے خوف کا خیال غالب آنے لگاتھا۔
حمزہ نے فریج کا دروازہ بند کیا۔ اب حمزہ اپنے کمرے میں آگیاتھا۔ ابھی تک حمزہ بھوک اور پیاس کی وجہ سے شدید تکلیف میں تھا۔ اپنی توجہ ہٹانے کے لیے اس نے ٹی وی ریموٹ پکڑا اور چینل تبدیل کرنے لگا ۔ ایک چینل پر جیسے اس کی انگلیاں ریموٹ پر جم گئی تھیں۔ یہ چینل صومالیہ پر رپورٹ دکھا رہاتھا۔ جس میں صومالیہ کے بچوں کو جب اناج کاایک پیکٹ دیا جاتا تو سب اس پر جھپٹ پڑتے ۔ یہ پیکٹ ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے پھینکے جارہے تھے۔ حمزہ کو یاد آگیاکہ ایک دن جب اس نے پیزا آرڈر کیاتھاتو پیزا لے کر آنے والا لڑکا غلطی سے دوسرا پیزا لے آیا تھا۔ حمزہ نے اس لڑکے کو برا بھلا کہاتھا ، پیزا لے کر اس لڑکے کے سامنے پھینک دیاتھا۔ حمزہ کی آنکھوں کے سامنے ایک منظر گھومنے لگا۔ جس میں اس نے کیفے ٹیریا سے فروٹ چاٹ لی۔ اسے جب یہ پسند نہ آئی تو اس نے اپنی امارت کا رعب جھاڑتے ہوئے کیفے کے چھوٹے کوبلا کر ساری فروٹ چاٹ اس کے سامنے ضائع کردی تھی ۔ حمزہ کے ماتھے پر نمی آگئی تھی ۔ جیسے کسی برے خواب نے اس کی آنکھیں کھول دی ہوں ۔ حمزہ نے گاڑی کی چابی پکڑی اور رضوان کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ رضوان اور حمزہ کلاس فیلو بھی تھے ۔ رضوان کا گھر کچھ زیادہ دور نہیں تھا۔وہ جب بھی فارغ ہوتا رضوان کے گھر چلا جاتا تھا۔ حمزہ جب رضوان کے گھر پہنچا ۔ گھر کے لان میں سفید داڑھی والے باباجی کام کررہے تھے۔ بابا جی رضوان گھر پر ہے ؟ ”نہیں صاحب جی گھر پر تو کوئی نہیں۔ “ چلیں ٹھیک ہے۔ حمزہ واپسی کے لیے مڑا ہی تھاکہ کیا دیکھتاہے کہ بابا جی کے ہاتھ کانپ رہے تھے ۔یہ بابا جی عرصہ دراز سے رضوان کے گھر مالی تھے۔ رضوان کے گھر کے پودوں کی دیکھ بھال کرتے تھے ۔ حمزہ نے کبھی بھی کام کرنے والوں میں کوئی دلچسپی نہ لی تھی ۔ با با جی کیا آپ نے روزہ رکھاہے ؟ حمزہ نے کانپتے ہاتھوں سے پودوں کو درست کرتے بابا جی سے سوال کیا “ جی بیٹا جی الحمدللّٰہ روزہ سے ہوں۔ بابا جی آپ روزہ کے ساتھ سخت محنت کرتے ہیں ۔ آپ کو بھوک اور پیاس نہیں لگتی؟ بیٹا لگتی توہے لیکن جس اللّٰہ کے لیے میں یہ تکلیف برداشت کرتاہوں۔ وہ اب پروردگار صبر بھی دیتاہے۔ بیٹا اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”روزہ خاص میرے لیے ہے اس کا اجر بھی میں دوں گا۔ “ میرا رب جس کام کا اجر دینے کا خود کہہ رہاتو بیٹا میں دنیا کے کاموں کے لیے وہ کیوں چھوڑ دوں ۔ “ اچھا باباجی اب میں چلتاہوں ۔ حمزہ گھر پہنچا اس کے امی اور ابو بھی آچکے تھے۔ ابو جی میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتاہوں۔ جی میرے لال ، حمزہ کے ابو نے پیار بھرے لہجے میں بیٹے کو جواب دیا ۔ ابو اگر ہمارا پیٹ تھوڑے سے کھانے سے بھر سکتا، تو ہم کیوں مختلف قسم کے کھانے بناتے ہیں۔ کیا مطلب ؟ میں کچھ سمجھا نہیں بیٹا آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ … ابو جی میرا مطلب ہے ہمارے گھر میں روز وافر مقدار میں کئی قسم کے کھانے پکتے ہیں جبکہ ہم سب تو اس سب میں تھوڑا سا کھاتے ہیں باقی ضائع ہوجاتاہے ۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتاکہ ہم اپنی خوشیوں میں لوگوں کو شامل کرلیں۔ اس طرح سے کھانا بھی ضائع نہیں ہوگا ۔ اللّٰہ جی ثواب بھی دیں گے ۔ باورچی ٹیبل پر افطاری کا سامان لگانا شروع کر چکا تھا۔ آج سیٹھ خاور اپنے بیٹے حمزہ کی باتیں سن کر خوش ہو رہے تھے ۔
ہاں کیوں نہیں بیٹا !اچھا مسلمان تو وہی ہے جو اپنے دوسرے بھائیوں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرے۔ آج ایک معصوم بچے نے پھر سے سیٹھ خاور کو بیدار کر دیا تھا۔
سیٹھ خاور اور ان کابیٹا ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑے ہوئے ۔ نہر کناے اس وسیع کوٹھی کے لان میں چٹائیاں بچھائی جانے لگیں ۔ کوٹھی کے تمام نوکر اور سیٹھ خاور اکٹھے بیٹھ کر روزہ کے ہونے کے لیے انتظار کرنے لگے ۔
کچھ لمحوں بعد قریبی مسجد سے روزہ افطارکی دعا کی آواز آنے لگی ۔ ہاتھ دعا کے لیے آسمان کی طرف بلند ہونے لگے۔ آج حمزہ کی آنکھوں میں نمی بھی تھی ۔ مگر یہ تبدیلی کی نمی تھی ۔ جو سیٹھ خاور نے بھی محسوس کی تھی ۔

story ''''ایک چیل کی کہانی'''''

ایک چیل کی کہانی
بچو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے

ڈاکٹر جمیل جالبی:
بچو! یہ اس چیل کی کہانی ہے جو کئی دن سے ایک بڑے سے کبوتر خانے کے چاروں طرف منڈلا رہی تھی اور تاک میں تھی کہ اڑتے کبوتر پر جھپٹا مارے اور اسے لے جائے لیکن کبوتر بھی بہت پھرتیلے، ہوشیار اور تیز اڑان تھے۔ جب بھی وہ کسی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ پھرتی سے بچ کر نکل جاتا۔ چیل بہت پریشان تھی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔
آخر اس نے سوچا کہ کبوتر بہت چالاک، پھرتیلے اور تیز اڑان ہیں۔ کوئی اور چال چلنی چاہیے۔ کوئی ایسی ترکیب کرنی چاہیے کہ وہ آسانی سے اس کا شکار ہوسکیں۔
چیل کئی دن تک سوچتی رہی۔ آخر اس کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی۔ وہ کبوتروں کے پاس گئی۔ کچھ دیر اسی طرح بیٹھی رہی اور پھر پیار سے بولی:
”بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری طرح دو پیروں اور دو پروں والا پرندہ ہوں۔ تم بھی آسمان پر اڑسکتے ہو۔ میں بھی آسمان پر اڑ سکتی ہوں۔ فرق یہ ہے کہ میں بڑی ہوں اور تم چھوٹے ہو۔ میں طاقت ور ہوں اور تم میرے مقابلے میں کمزور ہو۔ میں دوسروں کا شکار کرتی ہوں، تم نہیں کرسکتے۔میں بلی کو حملہ کر کے زخمی کرسکتی ہوں اور اسے اپنی نوکیلی چونچ اور تیز پنجوں سے مار بھی سکتی ہوں۔ تم یہ نہیں کرسکتے۔ تم ہر وقت دشمن کی زد میں رہتے ہو۔ میں چاہتی ہوں کہ پوری طرح تمہاری حفاظت کروں، تاکہ تم ہنسی خوشی، آرام اور اطمینان کے ساتھ اسی طرح رہ سکو۔ جس طرح پہلے زمانے میں رہتے تھے۔ آازدی تمہارا پیدائشی حق ہے اور آزادی کی حفاظت میرا فرض ہے۔ میں تمہارے لیے ہر وقت پریشان رہتی ہوں۔ تم ہر وقت باہر کے خطرے سے ڈرے سہمے رہتے ہو۔ مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ تم سب مجھ سے ڈرتے ہو۔
بھائیو! اور بہنو! میں طلم کے خلاف ہوں۔ انصاف اور بھائی چارے کی حامی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ انصاف کی حکومت قائم ہو۔ دشمن کا منہ پھیر دیا جائے اور تم سب ہر خوف سے آزاد اطمینان اور سکون کی زندگی بسر کرسکو۔ میں چاہتی ہوں کہ تمہارے میرے درمیان ایک سمجھوتا ہو۔ ہم سب عہد کریں کہ ہم مل کر امن کے ساتھ رہیں گے۔ مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گے اور آزادی کی زندگی بسر کریں گے، لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ تم دل و جان سے مجھے اپنا بادشاہ مان لو۔ جب تم مجھے اپنا بادشاہ مان لو گے اور مجھے ہی حقوق اور پور ااختیار دے دو گے تو پھر تمہاری حفاظت اور تمہاری آزادی پوری طرح میری ذے داری ہوگی۔ تم ابھی سمجھ نہیں سکتے کہ پھر تم کتنے آزاد اور کتنے خوش و خرم رہو گے۔ اسی کے ساتھ آزادی چین اور سکون کی نئی زندگی شروع ہوگی۔
چیل روز وہاں آتی اور بار بار بڑے پیار محبت سے ان باتوں کوطرح طرح سے دہرانی۔ رفتہ رفتہ کبوتر اس کی اچھی اور میٹھی میٹھی باتوں پر یقین کرنے لگے۔
ایک دن کبوتروں نے آپس میں بہت دیر مشورہ کیا اور طے کر کے اسے اپنا بادشاہ مان لیا۔
اس کے دو دن بعد تخت نشینی کی بڑی شان دار تقریب ہوئی۔ چیل نے بڑی شان سے حلف اٹھایا اور سب کبوتروں کی آزادی، حفاظت اور ہر ایک سے انصاف کرنے کی قسم کھائی۔ جواب میں کبوتروں نے پوری طرح حکم ماننے اور بادشاہ چیل سے پوری طرح وفادار رہنے کی دل سے قسم کھائی۔
بچو! پھر یہ ہوا کہ کچھ دنوں تک چیل کبوتر خانے کی طرف اسی طرح آتی رہی اور ان کی خوب دیکھ بھال کرتی رہی۔ ایک دن بادشاہ چیل نے ایک بلے کو وہاں دیکھا تو اس پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایسا زبردست حملہ کیا کہ بلا ڈر کر بھاگ گیا۔ چیل اکثر اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے کبوتروں کو لبھاتی اور انہیں حفاظت اور آزادی کا احساس دلاتی۔
اسی طرح کچھ وقت اور گزرگیا۔ کبوتر اب بغیر ڈرے اس کے پاس چلے جاتے۔ وہ سب آزادی اور حفاظت کے خیال سے بہت خوش اور مطمئن تھے۔
ایک صبح کے وقت جب کبوتر دانہ چگ رہے تھے تو چیل ان کے پاس آئی۔ وہ کمزور دکھائی دے رہی تھی۔ معلوم ہوتا تھا جیسے وہ بیمار ہے۔ کچھ دیر وہ چپ چاپ بیٹھی رہی اور پھر شاہانہ آواز میں بولی: ”بھائیو! اور بہنو! میں تمہاری حکمران ہوں۔ تم نے سوچ سمجھ کر مجھے اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ میں تمہاری حفاظت کرتی ہوں اور تم چین اور امن سے رہتے ہو۔ تم جانتے ہو کہ میری بھی کچھ ضرورتیں ہیں۔ یہ میرا شاہی اختیار ہے کہ جب میرا جی چاہے میں اپنی مرضی سے تم میں سے ایک کو پکڑوں اور اپنے پیٹ کی آگ بجھاؤں۔ میں آخر کب تک بغیر کھائے پیے زندہ رہ سکتی ہوں؟ میں کب تک تمہاری خدمت اور تمہاری حفاظت کرسکتی ہوں؟ یہ صرف میرا ہی حق نہیں ہے کہ میں تم میں سے جس کو چاہوں پکڑوں اور کھاجاؤں، بلکہ یہ میرے ساے شاہی خاندان کا حق ہے۔ آخر وہ بھی تو میرے ساتھ مل کر تمہاری آزادی کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس دن اگر اس بڑے سے بلے پر میں اور میرے خاندان والے مل کر حملہ نہ کرتے تو وہ بلا نہ معلوم تم میں سے کتنوں کو کھا جاتا اور کتنوں کو زخمی کردیتا۔
یہ کہہ کر بادشاہ چیل قریب آئی اور ایک موٹے سے کبوتر کو پنجوں میں دبوچ کر لے گئی۔ سارے کبوتر منھ دیکھتے رہ گئے۔
اب بادشاہ چیل اور اس کے خاندان والے روز آتے اور اپنی پسند کے کبوتر کو پنجوں میں دوچ کر لے جاتے۔
اس تباہی سے کبوتر اب ہر وقت پریشان اور خوف زدہ رہنے لگے۔ ان کا چین اور سکون مٹ گیا تھا۔ ان کی آزادی ختم ہوگئی۔ وہ اب خود کو پہلے سے بھی زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگے اور کہنے لگے: ”ہماری بے وقوفی کی یہی سزا ہے۔ آخر ہم نے چل کو اپنا بادشاہ کیوں بنایاتھا؟ اب کیا ہوسکتا ہے؟

story '''''شیر کا احسان''''''

شیر کا احسان
پرانے زمانے میں شہر سے کوسوں دور ایک گاؤں میں سیلاب آگیا۔ ہزاروں لوگ پانی میں بہہ گئے۔ لاتعداد گھر تباہ و برباد ہوگئے اور سینکڑوں لوگ پانی میں ڈوبنے سے بچ تو گئے مگر اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچاتھا

شیر کا احسان
ابن سراج:
پرانے زمانے میں شہر سو کوسوں دور ایک گاؤں میں سیلاب آگیا۔ ہزاروں لوگ پانی میں بہہ گئے۔ لاتعداد گھر تباہ و برباد ہوگئے اور سینکڑوں لوگ پانی میں ڈوبنے سے بچ تو گئے مگر اس کے پاس کھانے کو کچھ نہ بچاتھا۔
گاؤں میں ایک غریب کسان تھا۔ ایک سنار سے اس اچھی کی دوستی تھی۔ اس نے سنار کو تلاش کیا تو اتفاق سے اس کا گھر اور سب گھر والے سلامت تھے۔کسان اپنی بیوہ کے ساتھ جب اپنے دوست سنار کے پاس پہنچا تو وہ بھی اپنی پرویشانی بیان کرنے لگا: ”بھائی! میرا گھر تو چلو سیلاب سے بچ گیا، مگر دکان سیلاب سے برباد ہوگئی اور تمام مال اور زیورات بھی سیلاب کی نظر ہوگئے۔“
”پھر کیا کریں؟“ کسان نے سنار سے سوال کیا۔
”میرا خیال ہے کہ شہر چلتے ہیں۔ وہاں جاکر ضرور کہیں نہ کہیں نوکری یا مزدوری مل جائے گی۔ راستہ بہت طویل ہے او ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے۔“
”راستے میں جنگل بھی آتے ہیں۔“ کسان نے خیال پیش کرتے ہوئے کہا۔
”تو کیا ہو ہمت کرو، اللہ مالک ہیہ۔ یہاں تو کوئی ہماری مدد کیلئے بھی نہیں آئے گا۔ بادشاہ کو کیا پتا کہ ہم پر کیا مصیبت آکر گزر گئی ہے۔“
سنار کے خیالات سے کسان کو بہت حوصلہ ملا۔ اس کی بیوی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: ”بھائی سنار! ٹھیک ہی تو کہتے ہیں۔ بادشاہ تک اپنے حالات اور مصیبت کی خبر دینی چاہیے۔“
”ٹھیک ہے تو کل صبح یہاں سے روانہ ہوں گے۔ “ سنار نے مشورہ دیتے وہئے کہا: ”ہم دونوں کے بیوی بچے گاؤں میں ہی رہیں گے۔ دوسرے گاؤں سے میرا بھائی کھانے پینے کا سامان لے کر آنے والا ہے، تم اس کی فکر نہ کرو۔“
”ہاں ہاں سنار بھائی! مشورہ تو تم نے ٹھیک ہی دیا ہے۔“
آخر دونوں نے ضرورت کا کچھ سامان ساتھ لیا اور شہر کی طرف چل پڑے۔ چلتے چلتے شام ہوجاتی تو کسی محفوظ درخت پر چڑھ جر آرام کرلیتے، پھر جب دن نکل آتا تو سفر شروع کردیتے۔ چلتے چلتے آخر کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہوگیا۔ سنار کو بخار نے آگھیرا اور وہ بے چارہ چلنے سے بھی معذور ہوگیا۔ آخر کسان نے اسے درختوں کی آڑ میں محفوظ جگہ پر لٹا دیا۔ چاروں طرف آگ روشن کردی ، تاکہ کوئی موذی جانور یا درندہ قریب نہ آسکے اور خود گرتا پڑتا جنگلی پھل وغیرہ تلاش کرنے چل دیا۔ کچھ دور چلا تھا کہ راستے میں اسے ایک شیر ملا، جو درد کی تکلیف سے بے حال ہوئے جارہا تھا۔ شیر کو دیکھ کر کسان کو تھرتھری سی لگ گئی، مگر شیر پھر بھی نہ اٹھ سکا، بلکہ کسان سے کہنے لگا: ”اے بھائی! میں تجھے کچھ نہ کہوں گا، تو میری مدد کردے، اللہ تیرا بھلا کرے گا۔“
کسان نے شیر کو انسان کی زبان میں بات کرتے دیکھا تو اور بھی ڈرگیا۔
شیر نے کہا: ” اے بھائی! مجھ دے نہ ڈر۔ میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ مجھے بات کرنے کیلئے کچھ دیر کیلئے زبان دے دے۔“
کسان کے اندر ہمت پیدا ہوئی۔ اس نے قریب جا کر پوچھا: ”اب بتا تیری کیا مدد کروں؟“
”بھائی! میرے پچھلے پاؤں میں بہت بڑا کانٹا گھس گیا ہے۔ اس کی تکلیف سے مرا جاتا ہوں، تجھے خدا کا واسطہ یہ کانٹا نکال کر میری جان بچالے، ورنہ کوئی شکاری ادھر آگیا تو میر کمزوری سے فائدہ اٹھا کر مجھے قید کرلے گا۔“
کسان نے خدشہ ظاہر کیا: ”کانٹا تو نکال دوں گا مگر کیا بھروسہ کہ تو مجھے کھانہ جائے؟“
شیر نے عاجزی سے کہا: ”وعدہ کرتا ہوں کہ میں تجھے ہر گز کوئی نقصان نہ پہنچاؤں گا، بھلا کوئی اپنے محسن کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسا تو تم انسانوں میں ہوتا ہے۔“
کسان نے ہمت کی اور آگے بڑھ کر شیر کے پاؤں کے اندر تک گھسا ہوا کانٹا نکال دیا۔ زخم کو صاف کرکے اوپر رومال پھاڑ کر پٹی باندھ دی۔
شیر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ” اے نیک انسان! تیری اس نیکی کا میں کیا بدلہ دوں گا۔ آچل میرے ساتھ چل۔“
کسان شیر کے ساتھ چل پڑا کسان نے شیر سے کہا: ”اے شیر بھائی! میرا ایک اور ساتھی بھی کچھ دور جنگل میں بیمار پڑا ہوا ہے اور کمزوری کی وجہ سے اس سے چلا بھی نہیں جارہا ہے۔ پہلے مجھے کچھ کھانے کیلئے جنگلی پھل وغیرہ کا درخت بتادے تو مہربانی ہوگی۔
شیر نے کہا: ”اے نیک انسان! تیرا دوست بھی میرا دوست ہے۔ سن ابھی کچھ دنوں پہلے دو شکاری اس جنگل میں مجھے شکار کرنے آئے تھے۔ میں نے اور میری شیرنی نے موقع پا کر ان دونوں پر حملہ کر انہیں ہلاک کردیا تھا۔ ان کے ساتھ کھانے پینے کا سامان تھا۔ وہ محفوظ ہے۔ آپہلے ادھر چل اور وہ سامان تو اٹھا کر لے جا اور پھر میں تجھے ایک ایسی نایاب بوٹی کا پودا دکھاؤں گا چاہے کیسا ہی بیمار ہو ا سکی پتیاں پیس کر مریض کو پلادیں۔ ان شاء اللہ ایک دو دن میں بالکل تندرست اور توانا ہوجائے گا۔ ہم جانور بھی بیمار ہوجاتے ہیں تو اکثر یہی بوٹی تلاش کر کے کھالیتے ہیں۔ پھر شیر نے ایک درخت کے نیچے کھانے پینے کے سامان کی طرف لے جا کر کہا: ”اے نیک آدمی! یہ سامان اٹھالے۔“
کسان کھانے پینے کا سامان کپڑے میں باندھ کر کاندھے پر اٹھا کر شیر کے ساتھ چلنے لگا۔ کچھ دور جا کر شیر نے چھوٹے چھوٹے پودوں کی طرف پنجے سے اشارے کرتے ہوئے کسان سے کہا: ”یہ ہے وہ پودا جو ہر بیماری میں اللہ کے کم سے شفا دیتا ہے۔ غریب آدمی نے جلدی جلدی کچھ پودے تو ڑ کر سامان میں رکھ لیے۔
شیر نے مشورہ دیا: ”یہ بوٹی تم اپنے دوست کو کسی پتھر سے کچل کر پانی سے کھلا دینا، انشاء اللہ کچھ ہی دیر میں تندرست ہوجائے گا۔“
کسان نے شیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: ”اے اچھے شیر! تیرا بہت بہت شکریہ۔ اب مجھے اجازت چاہیے۔ میرا دوست میرا انتظار کررہا ہوگا۔“
شیر نے کہا: ”اے بھائی! اتنی جلدی نہ کر مجھے کچھ اور بھی خدمت کرنے دے۔ کافی دنوں پہلے ایک شہزادہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جنگل میں شکار کھیلنے آیا تھا۔ مگر چیتے اور ریچھ نے ان پر اچانک حملہ کردیا تھا۔ کچھ جان بچا کر بھاگ نکلے، مگر شہزادہ اور اس کا ایک ساتھی مارے گئے تھے۔ شہزادے کے گلے میں موتیوں کے ہار تھے۔ چیتا اور ریچھ ان کی لاشوں کو کھارہے تھے کہ اچانک میرا ادھر سے گزر ہوگیا۔ میں جو زور سے دہاڑا تو وہ ڈر کر بھاگ گئے۔ یہ ہیرے موتیوں کے ہار میں لے آیا اور اپنے غار می ایک جگہ چھپا دیے تھے۔ یہ تم لے جاؤ اور بادشاہ کو دے دینا۔ شاید بادشاہ اور ملکی شہزادے کے غم میں روتے ہوں گے۔ شیر کسان کو غار کے اندر لے گیا اور پنجے مار کر ایک جگہ گھاس میں چھپے ہوئے ہار کسان کو دکھاتے ہوئے کہا: ” اسے تم لے جاؤ، جو چاہو کرلینا، مگر اچھا ہو کہ بادشاہ کو پنا دو تاکہ تمہیں اس سے زیادہ انعام ملے۔“
کسان نے شیر کا شکریہ ادا کیا۔ شیر نے کہا: ” جاؤ خدا حافظ ہمیشہ نیک رہنا اور نیکی کرتے رہنا۔ “ کسان شیر سے رخصت ہو کر اپنے ٹھکانے پر آگیا۔ سنار کو اٹھا کر اسے بوٹی کچل کرپلادی۔ کچھ دیر میں سنار کا بخار ختم ہوگیا اور وہ بھلا چنگا نظر آنے لگا۔ کسان نے اسے جب تمام حالات بتائے اور شہزادے کے قیمتی جواہر کے ہار دکھائے تو سنار کے دل میں لالچ پیدا ہوگیا او جواہرات چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ کھانے پینے کا ذخیرہ مل چکا تھا۔ لہٰذا دونوں پھر شہر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں آتا ہوا قافلہ مل گیا او وہ بھی قافلے میں شامل ہوکر چل پڑے۔
شہر کے پاس ایک مسافر خانے میں یہ دونوں ٹھہر گئے۔ سنار کے دل میں لالچ تھا۔ جیسے ہی موقع ملا وہ جواہرات چرا کر بھاگ نکلا اور گھر کی راہ لی۔
ادھر ملکہ بیٹے کے غم میں بیمار ہو کر موت او زندگی کی کشمکش میں مبتلا تھی۔ بادشاہ کا اعلان تھا کہ جو کوئی ملکہ کا علاج کر کے اسے اچھا کرے گا، اسے آدھی سلطنت انعام دی جائے گی۔ ملکہ روز بروزموت کی طرف جارہی تھی۔ بڑے بڑے مشہور طبیب آرہے تھے، مگر کسی سے شفا نہیں ہورہی تھی۔ کسان بادشاہ کے محل پہنچ گیا اور سپاہیوں سے آنے کا مقصد بیان کیا تو وہ اسے بادشاہ کے پاس لے گئے۔
بادشاہ نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا: ”اے شخص! یہاں کئی ملکوں کے معالج آئے ہیں تم تو طبیب بھی نہیں لگتے، کہو پھر کیسے علاج کروگے؟ ہم پہلے ہی شہزادے کی جدائی کے غم میں مبتلا ہیں۔
کسان نے کہا: ”اللہ آپ کو اور ملکہ کو سلامت رکھے۔ بادشاہ سلامت! مایوس کویں ہوتے ہیں۔ آپ مجھے ملکہ عالیہ کے پاس لے چلیں۔ ان شاء اللہ پہلی ہی خوراک سے ملکہ عالیہ تندرست ہونے لگیں گی۔“
”اچھا یہ بات ہے تو آؤ میرے ساتھ۔“
بادشاہ ملکہ کے پاس کسان کو لے کر آگیا۔ کسان نے جیب سے بوٹی نکال کر اسے پانی میں گھول کر جیسے ہی پلایا، ملکہ کے ہاتھ پاؤں میں جنبش ہونا شو ہوگئی اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ دوسرے دن وہ بات چیت کرنے کے قابل ہوگئی۔ تما کادم، کنیزیں اور خودبادشاہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ شام تک ملکہ جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہوگئی۔
بادشاہ نے غریب اور نادار عوام کیلئے خزانے کے منھ کھول دیے۔ کسان کو آدھی سلطنت دینے کا بھی اعلان کردیا گیا۔
کسان نے بادشاہ سے کہا: ”عالی جاہ! شہزادہ شکار کے دوران مارا گیا تھا۔ پھر اس نے شروع سے لے کر آخر تک سارے حالات کا بادشاہ سے خر کرتے ہوئے سنار ک بدعہدی اور دھوکے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سنار شہزادے کے قیمتی ہار چرا کر فرار ہوگیا ہے۔ گاؤں میں سیلا ب اور اس سے ہونے الی تباہیوں سے ابدشاہ کو آگاہ کرتے ہوئے اس سے مدد کرنے کی اپیل بھی کی۔
بادشاہ کو سنار کی دھوکے بازی پر سخت غصہ آیا۔ اس نے فوراََ سپاہیوں کا ایک دستہ روانہ کرتے ہوئے سنار کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کردیا اور گاؤں والوں کیلئے امدادی سامان اور مدد کیلئے کارندے علاحدہ روانہ کردیے۔ سنار کو اس کے گھر سے گرفتار کر کے سرقلم کردیا گیا۔
بادشاہ نے اعلان کرتے ہوئے غصے سے کہا: ”چوروں، لٹیروں کیلئے اس ملک میں کوئی جگہ نہیں ہے۔“
بادشاہ نے کسان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے آدھی سلطنت دینے کی خواہش کی تو کسان نے کہا: ”بادشاہ سلامت! آپ اور آپ کی حکومت کو اللہ سلامت رکھے، آپ کی ضرورت آپ کے ملک کو ہے۔“
بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہا اور اسے اپنا بیٹا بناکر بعد میں وزیراعظم بنادیا۔